سن 1948ء سے اسرائیلی زیر تسلط فلسطین کے جنوبی علاقے نقب کےایک گاؤں بیر ھداج کے ذرائع نے بتایا ہے کہ انتہاء پسند یہودیوں کے ایک ٹولے نے گاؤں پر حملہ کرکے رہائشیوں کو تشدد کا نشانہ بنایا اور ان کے متعدد خیموں کو نذر آتش کردیا ہے۔
اتوار کی شام ہلہ بولنے والے ان یہودیوں کا تعلق یہودی بستی ”رٹمیم” سے تھا۔ دیہی معاملات کی مقامی کمیٹی کے سربراہ سلمان بن احمید نے خبر رساں ایجنسی ”قدس پریس” کو بتایا کہ رٹمیم یہودی بستی کے آباد کاروں نے گاؤں کے ایک باسی عید ابو حباک پر حملہ کیا اور اس کے خیمے کو اگ لگا دی، جس سے خیمے کے اندر موجود اشیاء جل کر راکھ ہوگئیں۔
ازاں بعد یہودی جتھے نے گاؤں کی جانب جانے والا راستہ بند کردیا جس سے حملے کی زد میں آئے اس گاؤں کے باسی اپنے گھروں میں جانے سے محروم رہ گئے۔
ابن حمید کے بہ قول گاؤں کے لوگوں نے یہودیوں کی اس جارحیت کے ردعمل میں یہودی بستی کی جانب جانے والا راستہ بند کردیا جس کے بعد یہودیوں اور فلسطینیوں کے درمیان باقاعدہ جھڑپیں شروع ہوگئیں اور دونوں ایک دوسرے پر اس وقت تک سنگ باری کرتے رہے جب تک کہ اسرائیلی فوج نے مداخلت نہ کی۔
یہودی شہریوں نے الزام عائد کیا ہے کہ گاؤں پر ان کا حملہ فلسطینیوں کی جانب سے ان کی گاڑیوں پر کیے جانے والے پتھراؤ کے رد عمل میں تھا جس کی بیر ھداج گاؤں کے مکینوں نے مکمل نفی کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ فلسطینیوں پر حملے کرنا ان یہودی آباد کاروں بالخصوص غزہ سے یہاں نقل مکانی کرنے والے یہودیوں کا وطیرہ بن چکا ہے۔
ادھر صہیونی پارلیمنٹ کے عرب رکن پارلیمان طلب ابو عرار نے الزام عائد کیا ہے کہ ان جنونی یہودیوں کے حملوں اور فلسطینیوں کی گرفتاریوں کے پیچھے اسرائیلی پولیس کا ہاتھ ہے۔
صہیونی کنیسٹ کے عرب رکن نے اسرائیلی پولیس سے مطالبہ کیا ہے کہ فلسطینیوں کے خیمے جلانے والے یہودیوں کی گرفتاری کے لیے ٹھوس اقدامات اٹھائے جائیں۔
بشکریہ:مرکز اطلاعات فلسطین