برطانیہ کی حکومت نے لبنان کی وزارت تعلیم کو دی جانے والی سالانہ خصوصی امداد اس سے مشروط کی ہے کہ وہ اپنے ہاں تعلیمی اداروں میں مروجہ نصابی کتابوں میں "مقبوضہ فلسطین” کی اصطلاح کے بجائے "اسرائیل” کا لفظ استعمال کرے۔
برطانوی حکومت کی جانب سے اس نامعقول شرط کے سامنے آنے کے بعد لبنان اور فلسطین کے تعلیمی حلقوں میں سخت تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔
لبنانی تنظیم اساتذہ کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ برطانوی حکومت اپنی حقیر امدادی رقم کے عوض ان کے ضمیر کا سودا نہیں کر سکتی۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ لبنان کے نصاب تعلیم بالخصوص جغرافیہ کی کتابوں میں فلسطینی شہروں کو اسرائیل کا مقبوضہ علاقہ قرار دینے کے بجائے اسے اسرائیل کا حصہ تسلیم کیا جائے۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ لبنانی عوام اور حکومت کو ایسی امداد کی کوئی ضرورت نہیں۔ ایسی نامعقول شرائط سے مشروط امداد کو وہ جوتے کی نوک پر رکھتے ہیں۔
لبنان کی سول سوسائٹی اور اساتذہ کی تنظیموں کی جانب سے برطانوی وزارت برائے عالمی ترقی کی جانب سے پیش کی گئی شرط پر گہرے دکھ کا اظہار کیا گیا ہے۔ لبنان ٹیچر یونین کی جانب سے جاری بیان میں بیروت حکومت سے بھی کہا گیا ہے کہ وہ لندن سرکار کے اس بلا جواز مطالبے کو مسترد کر دیں اور ایسی امداد وصول کرنےسے انکار کر دیں جس میں فلسطینیوں کے حقوق کی نفی کی جا رہی ہو۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ فلسطین کا چپہ چپہ فلسطینیوں کی ملکیت ہے۔ بیت المقدس آزاد فلسطین ریاست کا دارالحکومت ہو گا کیونکہ ہمارے آباؤ اجداد نے اپنے خون سے فلسطین کو اپنا وطن بنایا ہے۔ فلسطین شہداء کی سرزمین ہے اور آج بھی یہودیوں کا قبضہ ختم کرانے کے لیے فلسطینی مسلسل اپنی جانوں کےنذرانے پیش کر رہے ہیں۔ بیان میں کہا گیا کہ فلسطینیوں کو یہودیوں کےمظالم کا شکار کرانے میں برطانوی سامراج کا مرکزی کردار ہے۔ بیسویں صدی کے اوائل میں یہ برطانیہ تھا جس نے فلسطینیوں کو بلیک میل کرتے ہوئے ان کے ملک پر یہودیوں کو اپنی ناجائز ریاست کے قیام کا موقع فراہم کیا تھا۔ آج بھی برطانیہ فلسطینیوں کو بلیک میل کرنے کی سازشیں جاری رکھے ہوئے ہے۔
بشکریہ:مرکزاطلاعات فلسطین