فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ محمود عباس نے کہا ہے ک اسرائیل کی جانب سے مقبوضہ فلسطینی شہروں میں یہودی آباد کاری پر اصرار ہمارے لیے سب سے بڑی پریشانی کی بات ہے۔
اسرائیل ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت فلسطینی اراضی پریہودیوں کوآباد کر رہا ہے۔ اسرائیل کے اس غیرقانونی اور غیرآئینی اصرار کی بناء پر ہم آزاد فلسطینی ریاست کی حمایت کے لیے سلامتی کونسل سے رجوع کرنے پر مجبور ہو رہے ہیں۔
مرکز اطلاعات فلسطین کے مطابق صدر محمود عباس نے ان خیالات کا اظہار اسرائیل میں قائم عرب ڈیموکریٹک پارٹی کی سینٹرل کمیٹی کے ایک وفد سے ملاقات کے دوران کیا۔ وفد نے فلسطینی صدر سے رام اللہ میں ان کے ہیڈ کواٹر میں ان سے ملاقات کی۔
اس موقع پر فلسطینی صدر محمود عباس نے کہا کہ سنہ 1967ء کی جنگ میں اسرائیل کے قبضے میں چلے جانے والے تمام علاقے مکمل متنازعہ ہیں اور یہ فلسیطنی ریاست کا حصہ ہیں۔ ہم ان علاقوں سے کسی صورت میں دستبردار نہیں ہوں گے۔ بیت المقدس فلسطینی ریاست کا اٹوٹ انگ ہے اور ہم اسے آزاد ریاست کا دارالحکومت بنائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی 29 نومبر 2012ء کو فلسطینی ریاست کو تسلیم کرچکی ہے۔ اب ہم سلامتی کونسل سے رجوع کرنے جا رہے ہیں تاکہ فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے جنرل اسمبلی سے ٹائم فریم حاصل کیا جاسکے۔ فلسطینی صدر نے کہا کہ مذاکرات میں بہت سا وقت ضائع ہوچکا ہے۔ اب مزید بات چیت کے بجائے اقوام متحدہ سے رجوع کے سوا کوئی چارہ باقی نہیں بچا ہے۔ اب ہم سلامتی کونسل سے فلسطینی ریاست کے قیام کی ڈیڈ لائن حاصل کریں گے۔
صدر محمود عباس نے کہا کہ فلسطینی قوم کئی عشروں سے پرامن جدو جہد کے ذریعے اپنے دیرینہ حقوق اور آزادی کا مطالبہ کررہے ہیں۔ ہمیں اس مطالبے میں عالمی برادری کی مکمل حمایت حاصل ہے۔ اقوام متحدہ میں فلسطین کو ایک مبصر رکن کے طور پر تسلیم کر لینا عالمی برادری کی جانب سے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے اور اس کی حمایت کا برملا اظہار ہے۔
صدر ابو مازن کا کہنا تھا کہ فلسطینی ریاست موجود ہے۔ لیکن یہ دنیا کی واحد ریاست ہے جو ایک غاصب ملک کے فوجی قبضے میں ہے۔ آئندہ ماہ سلامتی کونسل کا فلسطین کے حوالے سے خصوصی اجلاس بلایا گیا ہے۔ ہمیں توقع ہے کہ عالمی برادری، بالخصوص بڑی طاقتیں فلسطینی ریاست کے قیام میں رخنہ اندازی نہیں کریں گی۔ مشرق وسطیٰ میں دیرپا قیام امن کے لیے دو ریاستی حل کا فارمولہ قبول کیا جائے گا تاکہ اسرائیل اور فلسطین بقائے باہمی کے تحت ایک ساتھ آگے بڑھ سکیں۔
انہوں نے کہا کہ جنیوا معاہدے کی رو سے کوئی ملک متنازعہ علاقے میں یک طرفہ طور پر کسی کو آباد نہیں کرسکتا ہے۔ اسرائیل اس معاہدے کی روزانہ خلاف ورزی کرتا ہے۔ عالمی برادری کو اس غیرقانونی یہودی آباد کاری کا سختی سے نوٹس لینا چاہیے۔
بشکریہ:مرکزاطلاعات فلسطین