اسرائیلی حکومت نے پہلی مرتبہ باضابطہ طور پر مسجد اقصی کو یہودیوں اور مسلمانوں کے درمیان تقسیم کرنے کے اقدامات کا آغاز کردیا ہے۔ اسرائیل کی نام نہاد وزارت ادیان کا کہنا ہے کہ یہودیوں کو مسجد اقصی میں تلمودی عبادات سے روکنا عبادت کرنے کی آزادی کے خلاف ہے۔
وزارت کے ڈائریکٹر الحنان غلات نے کنیسٹ کے اجلاس کی سائیڈ لائن پر بتایا کہ ان کی وزارت مسجد اقصی میں یہودیوں کو کھلے عام داخل ہوکر عبادت کا حق دینے کی کوششوں میں مصروف ہے اور اس ضمن میں قانون میں ترمیم کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ انہوں نے بتایاکہ پارلیمانی کمیٹی نے اس موضوع پر مطالعاتی کام کی ہدایت دے دی ہیں تاکہ یہودیوں کو مسلمانوں کے قبلہ اول میں عبادات کی ادائیگی کا حق دیا جاسکے۔
دوسری جانب اسرائیلی کنیسٹ (پارلیمان) میں انتہاء پسند لیکود پارٹی کے رکن موشے ویجلن نے یہ بیان بھی دیا تھا کہ یہ کیسے قبول کرلیا جائے کہ یہودیوں کو اسی مقام میں عبادت کی اجازت نہ ہو جو ان کا سب سے مقدس مقام ہے۔ اسرائیلی پارلیمانی کمیٹی کے سربراہ میری ریگیف کا کہنا تھا کہ یہودیوں کو جیل ھیکل (مسجد اقصی) میں داخل ہونے سے روکنا ان آزادی عبادت کے بنیادی حق کی خلاف ورزی ہے۔
اسرائیلی ریڈیو نے انکشاف کیا کہ صہیونی پارلیمنٹ میں بدھ کے روز یہودی آباد کاروں کو کھلے عام مسجد میں جانے کی اجازت دینے کے قانون پر بحث کی گئی ہے۔ اس انکشاف کے بعد فلسطینیوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔
بشکریہ:مرکز اطلاعات فلسطین