مرکزاطلاعات فل سطین کے مطابق اتوار کے روز غزہ کی پٹی میں اسلامی تحریک مزاحمت ’’حماس‘‘ کی دعوت پر مختلف سیاسی اور مذہبی جماعتوں کا مشترکہ اجلاس ہوا۔ صدر محمود عباس کی جماعت تحریک ’فتح‘ نے اجلاس میں شرکت سے معذرت کرلی تھی۔ اجلاس میں حال ہی میں رام اللہ میں قومی حکومت کے اجلاس میں غزہ کے عوام کے بارے میں صدر محمود عباس کی جانب سے نئی پالیسی کے اجراء پر غور کیا گیا اور صدر عباس سے مطالبہ کیا کہ وہ غزہ کے عوام کو ریلیف فراہم کرنے سے فرار اختیار نہ کریں۔
خیال رہے کہ گذشتہ ہفتے رام اللہ میں صدر محمود عباس نے قومی حکومت کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ غزہ کی پٹی میں سابق حکومت کے دور میں بھرتی ہونے والے سرکاری ملازمین کو تنخواہیں نہیں دے سکتے ہیں۔ انہیں نوکریوں سے فارغ کردیا جائے تاہم انہیں کاروبار کے لیے کچھ معاوضہ دینے پر غور کیا جاسکتا ہے۔ حماس سمیت فلسطین کی بیشتر سیاسی جماعتوں نے صدر عباس کے اس بیان کو قومی مفاہمت کے خلاف بغاوت قرار دے کر مسترد کردیا تھا۔
حماس کے پارلیمانی لیڈر ڈاکٹر صلاح الدین بردویل نے مرکزاطلاعات فلسطین سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ان کی جماعت کی جانب سے غزہ کی نمائندہ سیاسی جماعتوں کو بلایا گیا ہے تاکہ قومی حکومت کی ناکامیوں پر غور کے ساتھ جنگ سے متاثرہ شہریوں کی بحالی اور تعمیر نو سمیت دیگر اہم مسائل کے حل کےلیے کوئی نیا لائحہ عمل اختیار کیا جاسکے۔
دوسری جانب صدر محمود عباس کی جماعت الفتح نے حماس کی اپیل پر اجلاس میں شرکت سے انکار کیا ہے۔
یاد رہے کہ فلسطین میں گذشتہ برس کے وسط میں قائم ہونے والی قومی حکومت آج تک غزہ کی پٹی کو بحران سے نکالنے میں بری طرح ناکام رہی ہے۔ فلسطینی اتھارٹی اور قومی حکومت کی جانب سے حماس کی حکومت کے دور میں بھرتی ہونے والے سرکاری ملازمین کو تنخواہیں جاری کرنے سے بھی مسلسل پہلو تہی اختیار کی جاتی رہی ہے۔
بشکریہ:مرکزاطلاعات فلسطین