اسرائیل کی ایک خاتون میڈیکل ڈاکٹر اسپیشلسٹ پروفیسر میئرہ فائس نے مبینہ طور پر اعتراف کیا ہے کہ اسرائیل میں فلسطینیوں مردہ گان کے اعضاء چوری کرکے انہیں صہیونی مریضوں میں لگایا جاتا ہے۔
اس کے علاوہ متوفی فلسطینیوں کے جسم سے نکالے گئے اعضاء عبرانی یونیورسٹیوں کے میڈیکل کالجز میں بھی رکھے جاتے ہیں جہاں ان پر تجربات کیے جاتے ہیں۔
صہیونی میڈیکل ڈاکٹر نے یہ انکشاف اپنی ایک تازہ کتاب میں کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ فلسطینی مردہ گان کے جسم کے اعضاء کے کئی استعمالات ہیں۔ بعض اعضاء کی یہودی مریضوں میں پیوند کاری کی جاتی ہے۔ بعض کو سائنسی تجربات کے لیے استعمال میں لایا جاتا ہے۔
صہیونی خاتون ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ سنہ 1996 سے 2002 ء کے دوران میں نے "ابو کبیر” میڈیکل پوسٹ مارٹم انسٹیٹیوٹ کے کئی دورے کیے جہاں مجھے فلسطینی مُردوں کے چوری کیے گئے اعضاء کی بڑی تعداد دکھائی جاتی رہی۔ میں نے دیکھا کہ میڈیکل کالجوں کے طلباءفلسطینی مردگان کی ہڈیوں اور ان کے جسم کے دیگراعضاء پر پریکٹس کر رہے ہیں۔
پرفیسر میرہ نے بتایا کہ اس نے سابق وزیراعظم اسحاق رابین سمیت کئی اسرائیلی فوجیوں اور فلسطینی مزاحمت کاروں کے پوسٹ مارٹم دیکھے۔ ان کے جسم کے اعضاء کو چیر پھاڑ کے بعد الگ الگ کر دیا گیا تھا۔
صہیونی خاتون ڈاکٹر کے مطابق سنہ 1987 ء کی تحریک انتفاضہ کے دوران اسرائیلی فوج کے حملوں میں بڑی تعداد میں فلسطینی مارے جاتے۔ مرنے والے فلسطینیوں کی میتیں اسرائیلی اسپتالوں میں لائی جاتیں جہاں سے ان کے اعضاء چوری کرکے مختلف میڈیکل کالجوں اور جامعات میں پہنچائے جاتے تھے۔ اسپتالوں میں لائی جانے والی فلسطینیوں کی میتوں کو فوجی حکام کے احکامات کے تحت چیرا پھاڑا جاتا اور پھر ان کے جسم سے مخصوص اعضاء الگ کر لیے جاتے۔ جنہیں حسب ضرورت یہودی مریضوں میں پیوند کاری کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ مسز میرہ کا کہنا ہے کہ سنہ 1987 ء کی تحریک انتفاضہ یہودی اسپتالوں کے لیے سنہری دور سمجھا جاتا ہے کیونکہ اس عرصے میں بڑی تعداد میں فلسطینیوں کی میتیں اسپتالوں میں لائی جاتیں اور ان کے اعضاء چوری کرلیے جاتے تھے۔