مرکز اطلاعات فلسطین کے مطابق اقوام متحدہ کے اہلکار مکارم ویبیسونو نے امریکا کے شہر نیویارک میں ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میں مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں صرف ایک ماہ تک تعینات رہا۔ گذشتہ جون کے دوران میں نے اپنی تعیناتی کے عرصے میں اسرائیل کو فلسطینیوں کے بنیادی حقوق کی طرف مائل کرنے کے لیے بہت کچھ کیا تاکہ تنازعہ فلسطین کے حل کی سبیل نکالنی بھی آسان ہوجائے مگر اسرائیل نے الٹا میرے تبادلے اور برطرفی کے لیے مہم شروع کردی۔
ایک سوال کے جواب میں یو این اہلکار کا کہنا تھا کہ اگرچہ میری ایک ماہ کی مساعی سے فلسطین مین انسانی حقوق کی صورت حال بہتر نہیں ہوسکی تاہم اتنا ضرور ہوا کہ میں نے اسرائیلی فوج کے ہاتھوں انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں کا باربار نوٹس لیا۔ اسرائیل کے عدم تعاون اور میرے مخالف مہم کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا کہ مجھے اس عہدے کو چھوڑ دینا چاہیے۔
مکارم ویبسیو کا کہنا تھا کہ میں نے مقبوضہ بیت المقدس میں اسرائیلی حکومت سے باربار غزہ کی پٹی میں جانے کے لیے اجازت مانگی لیکن مجھے اجازت نہیں دی گئی۔ اسرائیل کو یہ خوف تھا کہ اگر میں غزہ چلا گیا تو وہاں پر ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو بے نقاب کر دوں گا۔ اس لیے میری درخواست بار بار مسترد کردی جاتی رہی۔ جب میں نے مصری حکومت سے غزہ جانے کے لیے اجازت مانگی تو اس نے فوری دے دی اور مجھے غزہ تک پہنچانے کے لیے مکمل سیکیورٹی بھی مہیا کی۔
یو این اہلکار کا کہنا ہے کہ سنہ 2006ء کے بعد اسرائیل نے غزہ کی پٹی پر بدترین معاشی پابندیاں عاید کررکھی ہیں جن کے نتیجے میں غزہ کے لاکھون لوگ نہایت کسمپرسی کی زندگی بسرکررہے ہیں۔ غزہ کے مکینوں کو علاج، تعلیم اور صحت کی بنیادی سہولتیں تک میسر نہیں ہیں۔