اسرائیل کے کثیرالاشاعات عبرانی اخبار ’’یدیعوت احرونوت‘‘ نے اپنی ایک تازہ رپورٹ میں بتایا ہے کی رکن کنیسٹ الیکزمیلر نے وزیر خارجہ آوی گیڈور لائبرمین کی ہدایت پر پارلیمنٹ میں ایک بل جمع کرایا ہے جس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ الشیخ رائد صلاح کی قیادت میں سرگرم اسلامی تحریک کی سرگرمیوں پر پابندی عاید کی جائے۔ اگر پورے فلسطین میں اس تنظیم پر پابندی لگانا ممکن نہ ہو تو کم سے کم اسلامی تحریک کی شمالی فلسطین کی شاخ کو ہر صورت میں ختم کرنے کی کوشش کی جائے۔
مسودہ قانون کے متن میں الزام عاید کیا گیا ہے کہ اسلامی تحریک شمالی فلسطین اور دوسرے عرب شہروں میں انتہا پسند اسلام کی ترویج و اشاعت میں سرگرم عمل ہے۔ اس تنظیم میں شامل فلسطینی عرب اسرائیل کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی کوششیں کر رہے ہیں۔ وہ قتل و غارت گری اور اسرائیلی تنصیبات پرحملوں میں بھی ملوث ہیں۔ لہٰذا پارلیمنٹ اس تنظیم کی سرگرمیوں پر پابندی لگانے کی منظوری دے۔
مسودہ قانون میں مزید کہا گیا ہے کہ اسلامی تحریک کی شمالی برانچ صہیونی ریاست کی بالا دستی اور ریاستی رٹ کو چیلنج کر رہی ہے اور اسرائیل کو ایک یہودی جمہوری ملک کے طور پر قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ یہ الزام بھی عاید کیا گیا ہے کہ اسلامی تحریک اسرائیل کے اندرونی شہروں میں اپنے اثرو روسوخ کو تیزی کے ساتھ پھیلا رہی ہے۔ نیز اس کے فلسطینی تنظیم اسلامی تحریک مزاحمت ’’حماس‘‘ کے ساتھ بھی نظریاتی اتحاد اور ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ اسلامی تحریک کی سرگرمیوں کی اجازت دینا حماس کو اسرائیل کے اندر کام کی اجازت دینے کے مترادف ہے۔
خیال ہے کہ اسرائیل کی جانب سے اسلامی تحریک پر پابندی کی یہ پہلی کوشش نہیں بلکہ ماضی میں بھی اس طرح کی کئی سازشیں کی جاتی رہی ہیں۔ صہیونی ریاست کی جانب سے اسلامی تحریک کے سربراہ اور بزرگ فلسطینی لیڈر الشیخ رائد صلاح، ان کا پورا خاندان اور تنظیم کے قایدین اور کارکنوں کو بھی مسلسل عتاب کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ الشیخ رائد صلاح پر بھی بھونڈے الزامات کے تحت مقدمات چلائے جاتے اور ان کے مسجد اقصیٰ اور بیت المقدس میں داخلے پر پابندیاں عاید کی جاتی رہی ہیں۔
بشکریہ:مرکزاطلاعات فلسطین