مصری پارلیمنٹ کے اسپیکر اور اخوان المسلمون کے رہ نما ڈاکٹرمحمد سعد الکتاتنی نے مذہبی کمیٹی سے مطالبہ کیا ہے
وہ شیخ علی جمعہ کے اسرائیلی ویزے پربیت المقدس اور مسجد اقصیٰ کے دورے کا سخت نوٹس لیتے ہوئے ان سے فوری طورپر استعفیٰ لے ۔ انہوں نے کہا کہ شیخ جمعہ نے حال ہی میں متنازعہ طریقے سے القدس کا دورہ کیا تھا، جس پر پارلیمنٹ کی اکثریت ان کے استعفے کی حامی ہے اور حتمی فیصلے کے لیے اپنی سفارشات مسلح افواج پرمشمل سپریم عسکری کونسل کو بجھوا رہی ہے۔
ادھر دوسری جانب پارلیمنٹ کے زیراہتمام مذہبی امورسے متعلق خصوصی کمیٹی کے چئیرمین سید عسکر نے اپنے ایک بیان میں شیخ علی جمعہ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اسرائیلی ویزے پرالقدس دورہ کرنے پر قوم سے معافی مانگیں اور عہدہ چھوڑ دیں۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ مصر کی دینی قیادت میں سے کسی کے لیے یہ بات قطعی طورپر نا مناسب ہے کہ وہ اسرائیلی شرائط پرمسجد اقصیٰ یا بیت المقدس کا دورہ کرے۔
سید عسکر کا کہنا ہے کہ انہیں شیخ علی جمعہ کے دورہ القدس کے بارے میں سن کرحیرت ہوئی۔ بیت المقدس کا دورہ کرنے سے قبل انہوں نے دینی قیادت سے مشاورت بھی مناسب نہیں سمجھی۔ انہوں نے شیخ علی جمعہ کی اس دلیل کو مسترد کردیا ہے کہ وہ اردن کے ویزے پرالقدس گئے تھے۔ سید عسکر نے کہا کہ جب تک اسرائیل کی شرائط اور اس کا ویزہ قبول نہ کیا جائے بیت المقدس میں داخلہ ممکن ہی نہیں۔
مصرکے ایک دوسرے رہ نما اوررکن پارلیمنٹ حسین ابراہیم نے بھی علامہ علی جمعہ کے دورہ القدس کی شدید مذمت کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم مفتی صاحب سے حلال و حرام کے بارے میں کوئی بات نہیں پوچھ رہے لیکن القدس کے بارے میں مصری دینی قیادت کاایک اجتماعی سیاسی فیصلہ ہے۔ انہوں نے استفسار کیا کہ آیا مفتی اعظم کو مسجد اقصیٰ کی بنیادیں کھوکھلی کرنے کے لیے کھودی جانے والی سرنگیں دکھائی نہیں دے رہی تھیں؟ وہ ایسے وقت میں مسجد اقصیٰ میں گئے جب اسرائیل نے فلسطینیوں کا قبلہ اول سے تعلق ختم کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رکھا ہے۔
خیال رہے کہ مصر کے مفتی اعظم شیخ علی جمعہ نے گذشتہ بدھ کو اردن کے بادشاہ شاہ عبداللہ دوم کے ایک بیٹے شہزادہ محمد کے ہمراہ مسجد اقصیٰ اور بیت المقدس کا دورہ کیا تھا۔ ان کے اس دورے کے بعد مصرمیں ان کےخلاف سخت ردعمل سامنے آیا ہے اوران پرعہدہ چھوڑنے کے لیے مسلسل دباؤ ڈالا جا رہا ہے۔
مصرکے عوامی اور سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ شیخ علی جمعہ نے اسرائیل سے ویزہ لے کربیت المقدس کا دورہ کیا ہے، جو کسی صورت میں قابل قبول نہیں۔
بشکریہ: مرکز اطلاعات فلسطین