مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق عینی شاہدین نے بتایا کہ سلفیت میں اتوار ے روز چار مقامات پریہودیوں کے لیے مکانات کی تعمیر کی غرض سے کھدائی شروع کی۔
مقامی فلسطینی سماجی کارکن اوریہودی توسیع پسندی کے امور پر نظر رکھنے والے تجزیہ نگار خالد المعالی نے بتایا کہ فلسطینی اراضی میں تازہ کھدائیاں سلفیت میں قائم ’’بروحین‘‘ اور ’’رفافا‘‘ یہودی کالونیوں میں کی گئی ہیں۔ بروحین میں فلسطینی اراضی پر اسرائیل کی ’’ارئیل ‘‘ عبرانی یونیورسٹی کا ایک کیمپس بنایا جا رہا ہے جبکہ دوسری یہودی کالونی میں یہودی آباد کاروں کے لیے مکانات کی تعمیر کی جارہی ہے۔
خالد المعالی نے بتایا کہ سلفیت شہر اور اس کے اطراف میں یہودی شدت پسندوں کی توسیعی سرگرمیوں میں غیرمعمولی اضافہ ہوچکا ہے۔ یہودی اپنی مرضی کے تحت کالونیوں میں مکانات کی تعمیر جاری رکھے ہوئے ہیں۔ انہیں صہیونی فوج، حکومت اور انتہا پسند گروپوں کی بھی مکمل سرپرستی حاصل ہے۔ المعالی کا کہنا ہے کہ سلفیت میں موجودہ اور مجوزہ 24 یہودی کالونیوں میں سلفیت گورنری اور اس کے مضافات کے18 دیہات کو شامل کیا گیا ہے۔
خالد المعالی کا کہنا تھا کہ سلفیت میں قابض یہودی آباد کارنہ صرف فلسطینی اراضی پرغاصبانہ قبضے کررہے ہیں بلکہ ان کی وجہ سےفلسطینیوں کو معاشی اور اقتصادی طورپر بھی پریشانی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ یہودیوں کی غیرقانونی توسیعی سرگرمیوں کے باعث شہر میں زراعت بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق یہودی غنڈہ گردی کے نتیجے میں سلفیت کی 70 فی صد زرعی ناکارہ بنا دی گئی ہے۔
فلسطینی تجزیہ نگار کا کہنا تھا کہ سلفیت بیت المقدس کے بعد یہودی شرپسندی کا دوسرا بڑا مرکز بن چکا ہے۔ اسرائیل اس شہر کے قدرتی وسائل کو للچائی ہوئی نظروں سے دیکھ رہا ہے اور یہودی آباد کار مسلسل شہر کی زرخیز زمین کو تباہی اور بربادی سے دوچار کررہے ہیں۔
یہ شہر رام اللہ، نابلس، بیت لحم اور مغربی کنارے کے کئی دوسرے شہروں کے لیے پانی کا بیش بہا زخیرہ فراہم کرتا ہے۔ قدرتی وسائل میں پانی کے علاوہ سفید اور سرخ قیمتی پتھر بھی اس علاقے میں وافر مقدار میں پائے جاتے ہیں۔ یہودی شرپسندوں کی جانب سے فلسطینی اراضی کی کھدائیوں کا ایک مقصد قیمتی پتھروں کی تلاش بھی ہے۔