مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق معاہدہ بالفور اس وقت کے برطانوی وزیرخارجہ آرتھرجیمز بالفور کے نام سے موسوم ہے۔ جیمز بالفورنے یہ معاہدہ صہیونی تحریک کے سربراہ لارڈ روچیلڈ کے مطالبے پرکیا جس کے تحت سرزمین فلسطین میں یہودیوں کو بسانے کے ایک مکروہ عمل کا آغازہوا۔ دوسرے الفاظ میں معاہدہ بالفور میں ارض فلسطین کو یہودیوں کا قومی وطن قراردیا گیا اورفلسطینیوں پریہود کی شکل میں ایک عذاب مسلط کیا گیا۔
فلسطین میں یہودیوں کے قومی وطن کے قیام کی منظوری اوراس کی عالمی حمایت کے حصول کے اس وقت کی برطانوی حکومت، برطانیہ میں مقیم یہودی رہ نمائوں اورعالمی صہیونی تحریک کےدرمیان تین سال تک مسلسل مذاکرات کا سلسلہ جاری رہا۔ آخرکار برطانوی وزیرخارجہ نے عالمی صہیونی تحریک کے سربراہ کو ذیل مکتوب تحریر کیا۔
از وزارت خارجہ ، حکومت برطانیہ
دو نومبر1917ء
قابل قدر لارڈ روچیلڈ،
میں برطانوی وزیرخارجہ تاج برطانیہ کے ایک نمائندے کی حیثیت سے آپ کو یہ تحریر کرتے ہوئے انتہائی دلی مسرت محسوس کررہا ہوں کہ وزارت خارجہ اورہماری حکومت نے یہود کی جانب سے علاحدہ وطن کے حصول کے لیے دی گئی تجویز کی منظوری دے دی ہے۔
عظیم تاج برطانیہ اورحکومت کی جانب سے ارض فلسطین میں یہودیوں کے لیے قومی وطن کی بنیاد رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اس مقصد کے حصول کےلیےہرممکن کوششیں کی جائیں گی اور یہودیوں کے وطن کے قیام میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی جائے گی۔ اس کے ساتھ یہ وضاحت بھی ضروری کرتا ہوں کہ فلسطین میں یہودی مذہب کے پیروکاروں کے علاوہ دیگر مذاہب اوراقوام کے لوگوں کو بھی یہود ہی کی طرح شہری اور مذہبی حقوق حاصل ہوں گے۔ جس طرح دنیا کے کسی بھی دوسرے خطے میں مقیم یہودیوں کو بنیادی انسانی اور سیاسی حقوق کا حق حاصل ہے اور وہ ان سے استفادہ کر رہے ہیں۔
مجھے امید ہے کہ آپ ہمارے اس فیصلے کو جلد ازجلد صہیونی تحریک کے دیگر نمائندہ گروپوں تک پہنچائیں گے۔
آپ کا مخلص
آرتھر بالفور
فلسطینی ریاست کی حمایت
بالفور ڈیکلریشن کی 97 ویں سالگرہ ایک ایسے وقت میں آئی ہے جب برطانوی پارلیمنٹ میں فلسطینی ریاست کی حمایت میں رائے شماری کی تیاریاں بھی کی جا رہی ہیں۔ برطانوی دارالعوام میں 13 نومبر کو ہونے والی رائے شماری برطانی سرکار کا ایک دوسرا امتحان ہے۔ اس سے یہ اندازہ ہوجائے گا کہ آیا برطانوی پارلیمان فلسطینی ریاست کے قیام میں کس حد تک سنجیدہ ہے۔ کیا وہ یہودیوں کے قومی وطن کی طرح اب فلسطین میں فلسطینیوں کو بھی آزاد اورخود مختار ریاست کے قیام کی حمایت کرے گی؟۔
گوکہ برطانوی پارلیمنٹ میں ایسی آوازیں موجود ہیں جو فلسطینیوں کے حق خود ارادیت کی حمایت کرتی ہیں۔ انہی ایسی معدودے چند آوازوں کا مطالبہ ہے کہ فلسطینی ریاست کو نہ صرف دارالعوام میں تسلیم کیا جائے بلکہ اس کی بنیاد پرسلامتی کونسل سے بھی فلسطینی ریاست کی منظوری لی جائے۔
بشکریہ:مرکزاطلاعات فلسطین