مرکز اطلاعات فلسطین کے مطابق سابق وزیر وصفی قبہا نے رام اللہ میں ایک نیوز کانفرنس کے دوران خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیلی جیلوں سے رہائی پانے والے بیشتر فلسطینی شہری زیادہ عرصے تک زندہ نہیں رہتےہیں۔ بعض جیلوں میں مہلک امراض کا شکار ہوتے ہیں لیکن صہیونی حکام فلسطینی مریض قیدیوں کے علاج معالجے میں مبینہ غفلت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ اسرائیلی جیلوں میں فلسطینی قیدیوں کو نئی ادویات کے تجربات کیے جاتے ہیں جن کے نتیجے میں وہ پراسرار امراض کا شکار ہو جاتے ہیں جو زیادہ عرصہ زندہ نہیں رہ پاتے۔
ایک سوال کے جواب میں وصفی قبہا نے کہا کہ اس امر کی عالمی سطح پر تحقیقات کی جانی چاہیے کہ آیا اسرائیل مریض قیدیوں کی زندگیوں کے ساتھ کیوں کھیل رہا ہے اور میڈیسن کمپنیوں کی جانب سے تیار کردہ ادویات کا قیدیوں پر کیوں کر استعمال کیا جاتا ہے۔
خیال رہے کہ اسرائیل کی وزیرتعلیم ڈالیا ایٹزک نے مبینہ طور پر اعتراف کیا ہے کہ جیل حکام مختلف کمپنیوں کی تیار کردہ نئی ادویات کے تجربات کے لیے چوہوں اور کیڑے مکوڑوں کے بجائے فلسطینیوں قیدیوں پر استعمال کرتے ہیں جس کے نتیجے میں ہزاروں قیدی پراسرار امراض کا شکار ہونے لگے ہیں۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ سنہ 1997ء تک کم سے کم 100 ادویات کے فلسطینی قیدیوں پر تجربات کیے گئے تھے،جس کے بعد سیکڑوں قیدی مہلک امراض کا شکار ہوئے۔ اسرائیلی جیلوں میں ان مریضوں کا علاج بھی نہیں کیا گیا۔
سابق فلسطینی وزیر برائے اسیران انجینیئر وصفی قبہا کا کہنا ہے کہ اسرائیلی جیلوں سے رہائی پانے والے بیشتر شہری پراسرار امراض کا شکار ہوتے ہیں جو زیادہ عرصہ زندہ نہیں رہتے بلکہ انتقال کر جاتے ہیں۔ا
نہوں نےایسے قیدیوں کی فہرست بھی بتائی اور کہا کہ پراسرار امراض میں مبتلا ہو کر موت کے منہ میں چلے جانے والوں میں مراد ابو ساکوت، محمد عبدالعفو العملہ، حامد طیون، مہران محمد رجب، ولید شعث، روحی الملاحقہ، زکریا داؤد عیسیٰ، زھیر لبادہ، اشرف ابو ذریع، ھائل حسین ابو زید، سیطان نمر الولی، نعیم الشوامرہ اور کئی دوسرے سابق اسیران شامل ہیں۔
انہوں نے کہا کہ صہیونی جیل حکام دانستہ طور پر فلسطینی اسیران کے امراض کے بارے میں غفلت کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ قیدیوں کی اموات کی بنیادی وجہ بھی اسرائیلی حکام کی دانستہ پرواہی ہے۔ انہوں نے فلسطینی اتھارٹی سے مطالبہ کیا کہ وہ صہیونی دشمن کی جیلوں سے رہائی پانے والے مریضوں کی تحقیقات کے حوالےسے میڈیکل اور قانونی ماہرین کی دو الگ الگ کمیٹیاں قائم کی جائیں اور اس امر کی چھان بین کریں کہ آیا صہیونی جیلوں میں فلسطینی اسیران کے ساتھ کس کس نوعیت کا مجرمانہ سلوک ہو رہا ہے۔