فلسطینی اتھارٹی کے ایک اہم عہدیدار نے کہا ہے کہ مغربی کنارے میں صدر محمود عباس کی حکومت نے اسلامی تحریک مزاحمت [حماس] سے وابستہ سابق اسیران کی تنخواہیں اور دیگر وظائف اور مراعات بند کردی ہیں۔ رام اللہ وزارت امور اسیران کے سیکرٹری زیاد ابوعین نے خبر رساں ایجنسی "قدس پریس” سے گفتگو کرتے ہوئے تسلیم کیا ہے کہ حکومت کے اعلیٰ سطحی احکامات کے بعد انہوں نے حماس کے 90 کارکنوں اور رہ نماؤں کی تنخواہیں روک دی تھیں۔
ابوعین کا کہنا تھا کہ حماس کے جن کارکنوں کے وظائف روکے گئے وہ اسرائیلی جیلوں میں پانچ سال یا اس سے زیادہ عرصے تک قید رہے ہیں۔ رہائی کے بعد وہ غزہ کی پٹی میں حماس کی حکومت میں پولیس میں بھرتی ہوگئے تھے یا انہوں نے حماس کے عسکری ونگ عزالدین القسام بریگیڈ میں سیکیورٹی کی ذمہ داریاں سنھبالی لی تھیں اور حماس کی جانب سے انہیں باضابطہ طور پر تنخواہیں ملتی ہیں۔
مسٹر ابوعین کا کہنا تھا کہ حماس کے جن رہ نماؤں کے مشاہرے روکے گئے ان میں القسام بریگیڈ کے اہم کمانڈر مروان عیسیٰ اور احمد الغندوز شامل ہیں۔ حکومت کے پاس ایسے تمام سابق اسیران کے نام اور ان کے عہدوں کی تفصیلات موجود ہیں جنہیں حماس نے رہائی کے بعد پولیس اور دیگر شعبوں میں بھرتی کررکھا ہے۔
ایک سوال کے جواب میں فلسطینی اتھارٹی کے عہدیدار کا کہنا تھا کہ اسرائیلی جیلوں میں زیرحراست بیشتر افراد کا تعلق حماس یا جماعت کے ملٹری ونگ عزالدین القسام بریگیڈ سے ہے مگر ان ہزاروں فلسطینی اسیران کے اہل خانہ کو فلسطینی اتھارٹی کی جانب سے باقاعدہ مشاہرے کی شکل میں مالی مدد فراہم کی جاتی ہے۔
بشکریہ:مرکزاطلاعات فلسطین