انسانی حقوق کی تنظیم اور بین الاقوامی امدادی ادارے”اوکسفام” نے سنہ 1993 ء میں فلسطینی انتظامیہ اور اسرائیل کے درمیان طے پائے "اوسلو” امن معاہدے کے فلسطینیوں کے معمولات زندگی پر پڑنے والے منفی اثرات پر ایک رپورٹ شائع
کی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بیس سال کے اس عرصے میں اسرائیل نے مقبوضہ عرب علاقوں بالخصوص مغربی کنارے اور بیت المقدس میں اندھا دھند طریقے سے یہودی بستیاں تعمیر کی ہیں۔ فلسطینی آبادیوں کو بنیادی سہولتوں سے بھی محروم کردیا گیا جس کے نتیجے میں فلسطینیوں کی زندگی اجیرن ہو کر رہ گئی ہے۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق مقبوضہ بیت المقدس میں ”اوکسفام” کی جانب سے میڈیا کو جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ سنہ 1993 ء کے بعد مغربی کنارے میں یہودی آباد کاروں کی تعداد دوگنا ہوگئی ہے۔ بیس سال پیشتر جب فلسطینی اتھارٹی اور اسرائیل کے درمیان امن سمجھوتہ طے پایا تھا اس وقت یہودی آباد کاروں کی تعداد 02 لاکھ 60 ہزار تھی جو کہ اب بڑھ کر 05 لاکھ 20 ہزار ہوچکی ہے۔ اس معاہدے کے بعد اسرائیل اور یہودی آباد کاروں مقبوضہ علاقوں کے مزید بیالیس فی صد حصے پر قبضہ کیا ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیم نے اسرائیل اور فلسطینی اتھارٹی کے ساتھ حالیہ مذاکرات کے نتائج پر بھی سخت تنبیہ کی ہے۔ بیان میں کہا گیا ہے جب سے فلسطینی اتھارتی کے ساتھ اسرائیل نے تازہ مذاکرات شروع کیے ہیں، صہیونی حکومت نے مغربی کنارے اور مشرقی بیت المقدس میں 3600 مکانات کی تعمیر کی منظوری دی ہے۔ اسی دوران مشرقی بیت المقدس میں فلسطینیوں کے 36 مکانات مسمار کردیے گئے۔ پچھلے بیس سال میں فلسطینیوں کے 15000 مکانات اسرائیل نے مسمار کردیےہیں۔
بیان میں بتایا گیا ہےکہ سنہ 1993 ء میں فلسطینی اتھارٹی سے معاہدے کے بعد اسرائیل نے خود کو فلسطینی عرب علاقوں میں آزاد سمجھنا اور ان علاقوں پر اپنا قبضہ جائز سمجھنا شروع کردیا۔ اس کے نتیجے میں فلسطینی معیشت کو بھی اربوں ڈالرز کا نقصان پہنچ چکا ہے۔ فلسطین ایک زرعی ملک ہے اور اسرائیلی فوج کی جگہ جگہ موجودگی اور فلسطینیوں پر پابندیوں کے باعث یہ پیشہ بری طرح تباہ ہوا ہے۔ غزہ کی پٹی کو سالانہ 75 ملین ڈالرز کے خسارے کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اوسلو معاہدے کے تحت فلسطینی ماہی گیروں کو 20 کلو میٹر تک سمندر کے اندر مچھلیوں کے شکار کی اجازت دی گئی ہے مگر اس وقت عملا فلسطینی پانچ سے چھ کلو میٹر بھی سمندر میں نہیں جاسکتےہیں۔ سنہ 2007ء کےبعد سے غزہ کی پٹی پر اسرائیل کی مسلط کردہ معاشی پابندیوں کے نتیجے میں غزہ میں 97 فی صد درآمدات و برآمدات متاثر ہوئی ہیں۔
بشکریہ:مرکزاطلاعات فلسطین