فلسطینی اتھارٹی اور اسرائیلی حکومت کے درمیان نام نہاد امن مذاکرات کئی پہلوؤں سے تباہ کن ثابت ہو رہے ہیں۔ صہیونی حکومت کے ساتھ مذاکرات نے شرپسند یہودیوں کو قبلہ اول پرحملوں اور مقدس مقام کی بے حرمتی کا موقع فراہم کیا ہے۔ یہ بات فلسطینی خاتون رکن قانون ساز کونسل منا منصورنے خبر رساں ایجنسی”قدس پریس” کو ایک انٹرویو میں کہی۔
ایک سوال کے جواب میں مسز منا منصور کا کہنا تھا کہ 44 سال پیشتر مسجد اقصٰی میں آتش زدگی کی مجرمانہ کارروائی ختم نہیں ہوئی بلکہ یہ مختلف شکلوں میں آج بھی جاری ہے۔ ماضی کی نسبت آج یہودی آباد کاروں کی سرگرمیوں سے مسجد اقصیٰ کو زیادہ اور سنگین خطرات لاحق ہیں۔ انتہا پسند اور مذہبی جنونیوں کے علاوہ قابض اسرائیلی حکومت کے وزراء اور اہم سیاسی شخصیات بھی مسجد اقصٰی کی بے حرمتی کے مرتکب ہورہے ہیں۔ یہ سب کچھ فلسطینی اتھارٹی اور صہیونی دشمن سے مذاکرات کرنے والے فلسطینی سیاست دانوں کے سامنے ہے اور بدقسمتی سے وہ مذاکرات میں مسجد اقصیٰ کی بے حرمتی کے سوال ہی کو فراموش کیے ہوئے ہیں۔ فلسطینی مذکرات کاروں کے اس طرزعمل نے یہودیوں کو قبلہ اول پریلغار کی حوصلہ افزائی کی ہے۔
ایک دوسرے سوال کے جواب میں فلسطینی خاتون سیاست دان نے مسجد اقصیٰ اور بیت المقدس کے خلاف صہیونی سازشوں کی روک تھام میں عالمی کردار کی بھی شدید مذمت کی۔ انہوں نے کہا کہ چوالیس سال قبل سانحہ مسجد اقصیٰ آتش زدگی کے بعد سے ہم دیکھ رہے ہیں کہ عالمی برادری اور بین الاقوامی اداروں نے اس المناک واقعے پر چُپ سادھ رکھی ہے۔ عالمی برادری کی اس مجرمانہ خاموشی نے بھی انتہا پسند یہودیوں کو قبلہ اول کے خلاف اپنی مکروہ سازشیں جاری رکھنے کا موقع فراہم کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ آج مسجد اقصٰی کی آتش زدگی کے ہولناک جرم کے چوالیس سال مکمل ہونے پر ہم دیکھ رہے ہیں کہ انتہا پسند یہودی ماضی کی نسبت زیادہ خطرناک طریقے سے مسجد اقصٰی پر یلغار کیے ہوئے ہیں۔
مسلمانوں کے قبلہ اول کی جگہ ہیکل سلیمانی کی تعمیر کے لیے جتنی منظم مہم اب چلائی جا رہی ہے ماضی میں کبھی نہیں رہی۔ ہیکل سلیمانی کی تعمیر کی سرگرمیوں کی آڑ میں روزانہ سیکڑوں انتہا پسند مسجد اقصٰی میں داخل ہوتے، اس کی بے حرمتی کرتے، قیمتی سامان کی توڑ پھوڑ کرتے، حفاظ قرآن، طلباء اور عملے کو زد و کوب کرتے اور قرآن کریم اور مقدس کتابوں کی توہین کے مرتکب ہوتے ہیں۔ یہودیوں کی یہ تمام سرگرمیاں فلسطینی مذاکرات کاروں کے سامنے ہیں، جنہیں صہیونی حکومت سے ملاقات سے بڑی شرف کی کوئی اور چیز دکھائی ہی نہیں دیتی ہے۔
خیال رہے کہ منا منصور اسلامی تحریک مزاحمت "حماس” کی سیاسی جماعت اصلاح و تبدیلی کے ٹکٹ پرسنہ 2006ء کے پارلیمانی انتخابات میں اپنے آبائی حلقے نابلس سے قانون ساز کونسل کی رکن منتخب ہوئی تھیں۔ منا منصور فلسطینی اتھارٹی کی قوم دشمن پالیسیوں کی سخت ناقد کے طور پر جانی جاتی ہیں۔
بشکریہ:مرکزاطلاعات فلسطین