مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق بھوک ہڑتالی اسیر عدنان کے اہل خانہ نے منگل کے روز جنین شہر میں ایک نیوز کانفرنس کے دوران کہا کہ صہیونی انتظامیہ کی جانب سے بھوک ہڑتالی قیدی کی حالت بگڑنے کے باوجود اس کا طبی معائنہ نہیں کرایا گیا۔ طبی معائنے میں کوتاہی دراصل ایک سازش کا حصہ تھی جس کا مقصد خضر عدنان کو بھوک ہڑتال کے دوران جان سے مارنا تھا۔
اہل خانہ کا کہنا تھا کہ بھوک ہڑتال کے بعد خضر الرملہ جیل میں رکھا گیا جہاں بنیادی ضرورت کی کوئی ایک سہولت بھی اسے میسرنہیں تھی۔ کئی روز تک بنیادی سہولیات سے محروم بھوکے پیاسے خضرعدنان کی جان بلب ہوگئی تھی اگر انسانی حقوق کے ادارے واویلا نہ کرتے تو صہیونی حکام عدنان کو اسپتال منتقل نہ کرتے کیونکہ وہ اسے بھوک ہڑتال ہی میں مارنے کا عزم کرچکے تھے۔
اہل خانہ کا مزید کہنا تھا کہ الرملہ جیل سے "عساف ھعرفہ ” اسپتال منتقل کیاگیا۔ اسپتال میں چند دن گذارنے کے بعد انہیں دوبارہ جیل لے جایا گیا۔ جیل منتقلی کے بعد دوبارہ ان سے تمام سہولتیں چھین لی گئیں۔ دوبارہ حالت بگڑنے کے بعد اسیر کو جنوبی تل ابیب میں واقع کابلان اسپتال لے جایا گیا ہے۔
گھروالوں کا مزید کہنا ہے کہ پچھلے اتوار کے بعد سے اب تک عدنان کو ناک کے ذریعے 1000 ملی لیٹر گلوکوز اور دیگر مائع ادویات دی گئی ہیں۔
خیال رہے کہ خضرعدنان کا تعلق مقبوضہ مغربی کنارے کے جنین شہر سے ہے اور وہ اسلامی جہاد کے اہم رہ نما ہیں۔ انہوں نے مئی کے پہلے ہفتے میں اپنی بلا جواز انتظامی حراست کے خلاف بھوک ہڑتال شروع کی تھی۔ یہ بھوک ہڑتال اب 56 دن میں جاری ہے۔ صہیونی حکام نے حال ہی میں انہیں زبانی طورپر رہائی کی یقین دہانی کرائی ہے تاہم انہوں نے مطالبہ کیا ہے کہ اسرائیلی انتظامیہ انہیں تحریری ضمانت فراہم کرے کہ وہ آئندہ انہیں انتظامی حراست میں نہیں رکھیں گے تاہم اسرائیلی فوج نے تحریری ضمانت دینے سے انکار کردیا ہے۔
بشکریہ:مرکزاطلاعات فلسطین