صابر کربلائی کا تعلق کراچی شہر ہے، جو اس وقت فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان کے مرکزی ترجمان ہیں۔ صابر کربلائی اس سے قبل بھی امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کراچی ڈویژن کے جنرل سیکریٹری سمیت اہم عہدوں پر بھی کام کرتے رہے ہیں، صابر کربلائی اس وقت جامعہ کراچی کے شعبہ سیاسیات میں فلسطینیوں کے حق خود ارادیت کے موضوع پر پی ایچ ڈی کررہے ہیں صابر کربلائی کا شمار کراچی میں اُن فعال افراد میں ہوتا ہے جو فلسطین اور القدس کی آزادی کی خاطر دن رات کام کر رہے ہیں۔ ان ہی کوششوں سے فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان آج ملک کے گوش و کنار میں فلسطین کی آزادی کی آواز بلند کرنے میں مصروف عمل ہے۔ یوم نکبہ سے متعلق اسلام ٹائمز نے اُن سے ایک اہم انٹرویو کیا ہے، جو قارئین کے لئے پیش خدمت ہے۔ ادارہ
اسلام ٹائمز: موجودہ دور میں فلسطین کے حوالے سے کیا تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں؟
صابر کربلائی: بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ موجودہ دور میں مسئلہ فلسطین ایک نئی جہت اور نئے جوش وجزبے کے ساتھ پوری دنیا میں آشکار ہو رہا ہے۔ یعنی اگر اس حوالے سے یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ کائنات میں بسنے والا ہر شخص آج مسئلہ فلسطین اور فلسطین میں بسنے والے مظلوموں کے بارے میں سوچ رہا ہے اور کوشش کر رہا ہے کہ کسی طرح اپنی آواز کو ان مظلوم فلسطینیوں کی آواز کے ساتھ ہم آواز کرے کہ جن کی آواز کو غاصب اسرائیل نے اپنے بہیمانہ مظالم سے دبا دیا ہے۔ اگر ہم گذشتہ چند سالوں کی بات کریں تو ہم دیکھتے ہیں کہ اسلام و مسلمانوں کے دشمن بلکہ عالم انسانیت کے دشمن امریکہ اور اسرائیل سمیت مغربی قوتوں نے اس بات کی کوشش کی ہے کہ کسی طرح مسئلہ فلسطین کو محدود کردیا جائے جس کے لئے انہوں نے پہلے پروپیگنڈا کیا کہ فلسطین کا مسئلہ صرف اور صرف عربوں کا مسئلہ کا جبکہ دوسرے مرحلے میں انہوں نے اس بات کا پرچار بھی کیا کہ فلسطین کا معاملہ صرف فلسطین اور اسرائیل (مقبوضہ فلسطین) کے درمیان ہے۔
اسی طرح دوسری طرف آپ نے ملاحظہ کیا کہ آج پوری دنیا سے فلسطین اور فلسطینیوں کے حق میں صدائیں بلند ہو رہی ہیں اور اب یہ مسئلہ صرف عربوں، مسلمانوں یا عالم اسلام کا نہیں بلکہ یہ ایک عالمگیر اور انسانی مسئلہ بن چکا ہے جو خود اس بات کا ثبوت ہے، مسئلہ فلسطین کے حوالے سے پوری دنیا میں بیداری پیدا ہو چکی ہے اور ہر ذی شعور اس بات سے واقف ہوچکا ہے کہ عالمی دہشت گرد امریکہ اور اس کی ناجائز اولاد اسرائیل نہ صرف فلسطین بلکہ پوری دنیا میں مظلوم انسانوں کا خون چوس رہے ہیں۔ خلاصہ یہ ہے کہ مسئلہ فلسطین کے حوالے سے سب سے بڑی تبدیلی یہی ہے کہ آج دنیا کے گوش و کنار سے ہزاروں انسانوں کے کاروان فلسطینیوں کی آزادی کے لئے فلسطین کا رخ کر چکے ہیں اور وقتاً فوقتاً فلسطینیوں کی مدد کے لئے غزہ پہنچ رہے ہیں۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ اب اس سلسلے میں کمی نہیں آئے گی بلکہ یہ سلسلہ مزید تیز تر ہوگا اور فلسطینیوں کی آزادی تک جاری رہے گا۔
اسلام ٹائمز: یوم نکبہ کے بارے میں آپ کیا کہنا چاہیں گے؟
صابر کربلائی: یوں تو تاریخ میں کئی ایک ایسے ادوار گذرے ہیں جو تاریخ میں رقم ہو چکے ہیں اور ایسے بھی کئی ایام ہیں جن کو پوری دنیا میں بڑی اہمیت دی جاتی ہے۔ اسی طرح کی تاریخ میں ایک ایسا دن بھی شامل ہے جس کو تباہی اور بربادی کے دن کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ آخر یہ کون سا دن ہے اور اس دن کو کیوں تباہی اور بربادی سے منسوب کیا گیا ہے۔ یہ دن فلسطینیوں کی تاریخ کا بدترین اور سیاہ دن ہے بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ یہ دن پوری مسلم امہ اور انسانیت کے چہرے پر ایک دھبہ ہے تو غلظ نہ ہو گا۔ جس دن کے بارے میں بات کی جا رہی ہے اس دن کو دنیا ’’ یوم نکبہ ‘‘ یعنی تباہی اور بربادی کے دن کے نام سے جانتی ہے۔ یوم نکبہ یعنی 15 مئی سنہ 1948ء کا وہ دن کہ جس دن بوڑھے استعمار برطانیہ اور عالمی دہشت گرد امریکہ کی ایماء اور سرپرستی میں سرزمین انبیاء علیہم السلام (فلسطین) پر ایک غاصب اور جارح ریاست کا وجود عمل میں لایا گیا جسے دنیا اسرائیل (مقبوضہ فلسطین) کے نام سے جانتی ہے۔ ایک طرف عالمی دہشت گرد قوتوں نے دنیا بھر سے یہودیوں کو لاکر فلسطینیوں کی سر زمین پر بسایا اور پھر ظلم دیکھئے کہ ان کی سر زمین پر نہ صرف قبضہ کیا بلکہ اس پر ایک ناجائز اور غاصب ریاست کے وجود کو جنم دیا گیا۔
بہر حال 15 مئی 1948ء کو انسانیت کے منہ پر ایک ایسا طمانچہ رسید کیا گیا جس کے نشان آج بھی مظلوم انسانیت کے چہرے پر دیکھے جاسکتے ہیں۔ یوم نکبہ یعنی 15 مئی سنہ 1948ء کو ایک طرف مظلوموں اور نہتے فلسطینیوں کی سر زمینوں پر قبضہ کیا گیا تو دوسری طرف بدنام زمانہ دہشت گرد صیہونی تنظیم ہگانہ اور اس کے ہمنواؤں نے پورے فلسطین میں خون کی ایک نا ختم ہونے والی ہولی کا آغاز کر دیا جو آج تک سر زمین فلسطین پر جاری ہے۔ ظلم و ستم کی انتہاء یہ رہی کہ جہاں ایک ہی دن میں ہزاروں فلسطینی بچوں، مردوں اور خواتین کو بیہمانہ تشدد کے ذریعے قتل کیا گیا وہاں فلسطینیوں کو مجبور کیا گیا اور جبری طور پر ان کو اپنے ہی گھروں، کھیتوں، باغیچوں اور زمینوں سے نکال باہر پھینکا گیا اور آخرکار مظلوم فلسطینیوں کی ایک بہت بڑی تعداد جو کہ تقریباً سات لاکھ سے زائد تھی اپنے گھروں اور زمینوں سے نکل کر قریبی سرحدی ممالک میں ہجرت کرنے پر مجبور ہوئی جو تاحال اپنے وطن اور اپنے گھروں میں جانے سے گریزاں ہے۔
لاکھوں فلسطینی آج بھی اپنے گھروں اور اپنے پیاروں سے دور دوسرے ملکوں میں زندگی گذار رہے ہیں اور ان کو مہاجرین کی حیثیت سے پناہ دی گئی ہے۔ البتہ اسرائیلی بربریت اور ظلم و ستم کا سلسلہ یہیں ختم نہ ہوا بلکہ مہاجرین کو دوسرے ممالک میں بھی بدترین دہشت گردی کا نشانہ بنایا جاتا رہا۔ مثال کے طور پر لبنان میں صبرا اور شتیلا کے فلسطینی مہاجر کیمپوں پر اسرائیلی وحشیانہ بمباری کی گئی اور سیکڑوں فلسطینیوں کو موت کی نیند سلا دیا گیا۔ غرض یہ کہ غاصب صیہونی اسرائیل کی ہمیشہ سے یہ کوشش رہی ہے کہ کسی طرح فلسطینیوں کو ان کی زمینوں سے بے دخل کردیا جائے اور پورے فلسطین پر قبضہ جما لیا جائے۔ فلسطینیوں کو ان کی زمینوں اور گھروں سے بے دخل کرنے کا سلسلہ گذشتہ 65 برسوں سے جاری ہے اور لاکھوں فلسطینی دنیا کے مختلف ممالک میں پناہ گزین ہیں اور اس بات کے منتظر ہیں کہ وہ اپنے وطن کو واپس لوٹ سکیں جو کہ ان کا بنیادی اور انسانی حق بھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فلسطینی عوام 15 مئی کو ’’ یوم نکبہ ‘‘ (یعنی مصیبت اور تباہی کا دن) قرار دیتے ہیں کیونکہ یہی وہ دن ہے کہ 65 برس قبل غاصب اسرائیل نے فلسطین پر قبضہ کیا اور پھر فلسطینیوں کو ان کے وطن سے نکال باہر کیا۔