اسلام ٹائمز: فلسطینی مہاجرین کی وطن واپسی کے لئے کیا حل پیش کریں گے؟
صابر کربلائی : یہاں بات غاصب اسرائیل کی اجازت کی نہیں ہے کیونکہ اسرائیل ایک ایسی غاصب ریاست کا نام ہے جسے فلسطینی قبول نہیں کرتے اور دنیا کے کئی ممالک نے آج تک اسرائیل نامی جرثومے کو قبول نہیں کیا ہے۔ پاکستان ایسے ہی ممالک میں سے سر فہرست ہے کہ جس نے روز اول سے غاصب اسرائیل کے وجود کی مخالفت کی ہے اور اسے ایک ناجائز اور غیر قانونی ریاست قرار دیا ہے۔ جہاں تک فلسطینی پناہ گزینوں اور مہاجرین کی واپسی کی بات ہے تو میں یہ سمجھتا ہوں کہ فلسطین، فلسطینیوں کا وطن ہے اور تمام فلسطینیوں کو فلسطین واپس آنا چاہئیے جو کہ امریکہ سمیت برطانیہ اور مغربی قوتیں نہیں چاہتیں۔ آج بھی اگر فلسطین کے حالات کا جائزہ لیا جائے تو ہم دیکھتے ہیں کہ غاصب اسرائیل نے ہر دن کو فلسطینیوں کے لئے یوم نکبہ بنا رکھا ہے اور انسانیت سوز مظالم کی انتہا کر رکھی ہے۔ بین الاقوامی قوانین کی روشنی میں بھی غور و فکر کیا جائے تو نتیجے میں یہی نقطہ سمجھ میں آتا ہے کہ ہر انسان کا یہ بنیادی حق ہے کہ وہ اپنے وطن میں زندگی گزارے اور آزادی سے رہے لیکن فلسطین کے عنوان پر ہمیں تمام بین الاقوامی قوانین فقط کاغذوں کی زینت کے طور پر ہی نظر آتے ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا کسی کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ کسی کے گھر میں داخل ہو جائے اور پھر غنڈہ گردی کرے اور اس گھر کے باسیوں کو ظلم و تشدد کا نشانہ بھی بنائے اور آخر میں اسی گھر کے باسیوں کو جو وہاں دسیوں سال سے زندگی گذار رہے تھے بے سر و سامان در بدر کردے؟ کیا دنیا کی مہذب تہذیب اور تمدن یہی درس دیتی ہے؟ کیا انسانی حقوق اور عالمی قوانین اس بات کی اجازت دیتے ہیں؟ دنیا کی بڑی طاقتیں جو آئے روز انسانی حقوق کی فراہمی کا پرچار کرتے نہیں تھکتی ہیں کیا فلسطین کے مظلوم انسانوں کے لئے ان کی زبانوں پر تالے لگ جاتے ہیں؟ اگر ایسا نہیں تو پھر آخر کیوں آج لاکھوں فلسطینی اپنے گھروں کو جانے اور اپنے کھیتوں میں کام کرنے کو ترس رہے ہیں؟ آخر کیوں کوئی عالمی قوانین اور ان قوانین کے بنانے والے ان کی مدد کو نہیں پہنچ رہے؟ یا پھر یہ کہ فلسطین میں بسنے والے فلسطینی انسان ہی نہیں ہیں کہ جن پر کسی قسم کا قانون لاگو ہوتا ہو۔ لاکھوں فلسطینی چاہتے ہیں کہ اپنے وطن واپس لوٹ جائیں لیکن ان کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ وہ قوتیں ہیں جو عالمی قوانین بناتی ہیں، جو انسانی حقوق کا دم بھرتی ہیں آخر ایسا کیوں ہے؟ فلسطین روز اول سے فلسطینیوں کا وطن ہے، جسے دنیا کی کوئی طاقت ان سے جدا نہیں کر سکتی اور فلسطینیوں کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے وطن لوٹ جائیں اور اپنی زندگی گزاریں۔ اسرائیل ایک ایسا سرطان ہے جو نہ صرف فلسطین کو تباہ و برباد کرنا چاہتا ہے بلکہ مشرق وسطیٰ اور پھر ایشیاء سمیت پورے عالم اسلام اور پوری دنیا کو اپنے پنجوں سے زخمی کرنا چاہتا ہے تاکہ پوری دنیا کے لوگ غاصب اسرائیل کے محتاج ہو جائیں اور اس کے غلام بن جائیں۔
اگر ہم نے مظلوم فلسطینیوں کے حق کے لئے آواز نہ اٹھائی تو عنقریب پوری دنیا اسرائیلی سرطان کی لپیٹ میں آجائے گی اور پھر پانی سر سے گزر چکا ہوگا۔ فلسطینیوں کو پورا پورا حق حاصل ہے کہ وہ اپنے وطن اور اپنی سرزمین پر زندگی گزاریں۔ سنہ 1948ء سے قبل لاکر بسائے جانے والے یہودیوں کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ سر زمین فلسطین کے مالک بن بیٹھیں اور اس سر زمین کے مالکوں کو بے گھر کر دیں۔ ہونا تو یہ چاہئیے کہ تمام فلسطینیوں کی فلسطین واپسی ہو جو سنہ 1948ء میں اور اس کے بعد وقفے وقفے سے جلا وطن کئے گئے سب کے سب فلسطین واپس پلٹ آئیں خواہ ان میں مسلمان ہوں، عیسائی ہوں، یہودی ہوں یا کسی اور مذہب کے پیروکار ہوں اگر وہ فلسطین کے باشندے ہیں اور سنہ 1948ء میں سرزمین فلسطین میں زندگی گزار رہے تھے ان کو حق حاصل ہے کہ فلسطین لوٹ آئیں اور آنے کے بعد ایک عمومی ریفرنڈم کے ذریعے اپنے لئے ایک حکومت یا نظام کا فیصلہ کریں اور پھر وہ نظام یہ فیصلہ کرے کہ سنہ 1948ء کے وقت اور اس کے بعد دنیا بھر سے لاکر بسائے جانے والے یہودیوں اور صیہونیوں کو فلسطین میں رہنے کا حق حاصل ہے یا نہیں اور ایسے حالات میں صرف ایک ریاست کا وجود ہو جس کا نام فلسطین جو نیل کے ساحل سے لے کر تا بہ خاک کاشغر۔
اسلام ٹائمز: فلسطینیوں کی فلسطین واپسی کے عنوان سے فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان کیا کوششیں کر رہی ہے؟ اس حوالے سے عالمی سطح پر کیا پیشرفت ہے، روشنی ڈالیں؟
صابر کربلائی: فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان کا مؤقف بہت واضح ہے، فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان اس برس یوم نکبہ کو ’’ فلسطینیوں کی فلسطین واپسی ‘‘ کی مہم کے عنوان سے منا رہی ہے، جس کے تحت ملک بھر میں احتجاجی مظاہروں سمیت سیمینارز اور تصویری نمائشوں کے پروگرام منعقد کئے جائیں گے اور فلسطینیوں کے حق واپسی پر زور دیا جائے گا اور اقوام متحدہ اور دیگر عالمی و علاقائی اداروں سے بھرپور اپیل کرتے ہیں کہ وہ فلسطینیوں کو ان کے وطن واپس جانے میں ان کی مدد کریں اور فلسطینیوں کے حق واپسی کو یقنی بنایا جائے۔ جہاں تک عالمی سطح پر ہونے والی کوششوں کی بات ہے تو اس حوالے سے دنیا بھر میں تحریک آزادی فلسطین کے لئے کام کرنے والی تنظیموں اور اداروں سے فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان کا مضبوط رابطہ ہے اور حال ہی میں لبنان کے دارالحکومت بیروت میں ایک بین الاقوامی کانفرنس کا انعقاد بھی کیا گیا تھا جس میں فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان کے دو رکنی وفد نے بھی شرکت کی اور اس بین الاقوامی کانفرنس میں بھی سب سے زیادہ جس نقطہ پر بحث کی گئی وہ فلسطینیوں کی فلسطین واپسی ہے۔
لہذٰا یوم نکبہ کے موقع پر پوری دنیا میں اور بالخصوص پاکستان میں فلسطینیوں کی فلسطین واپسی کی مہم کا آغاز کیا جائے گا جبکہ اسی حوالے سے فلسطین کے اطراف سرحدوں بشمول مصر، اردن، شام اور لبنان میں ہزاروں فلسطینی جمع ہو کر فلسطین کی طرف مارچ کریں گے ۔ فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان نے یوم نکبہ کی مناسبت سے فلسطینیوں کی فلسطین واپسی کی مہم کے عنوان سے ذرائع ابلاغ کے اداروں اور آئمہ جمعہ کو خطوط لکھ دئیے ہیں اور اپیل کی ہے کہ وہ اس مہم کے حوالے سے پاکستان کے با شعور اور غیور عوام کو آگہی فراہم کریں اور فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی کریں۔
اسلام ٹائمز: گذشتہ برس گلوبل مارچ ٹو یروشلم کا انعقاد کیا گیا تھا آپ کیا سمجھتے ہیں کہ گلوبل مارچ کے مثبت اثرات ہوئے ہیں؟ کیا مستقبل میں ایسا کوئی اور مارچ بھی متوقع ہے؟
صابر کربلائی: الحمد للہ! گذشتہ برس مارچ کے مہینے مین دنیا بھر سے حریت پسندوں کے قافلوں نے انبیاء علیہم السلام کی سر زمین فلسطین کی طرف مارچ کیا اور لاکھوں حریت پسند فلسطین کی سرحدوں پر جمع ہوئے، یہ وہ دن تھا کہ جس دن فلسطین میں ’’ یوم الارض فلسطین ‘‘ منایا جاتا ہے۔ یعنی تیس مارچ۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ گلوبل مارچ ٹو یروشلم فلسطین کی آزادی کا ایک باب ہے جسے تاریخ کبھی فراموش نہیں کر سکے گی۔ تیس مارچ کو ہونے والا گلوبل مارچ جہاں بہت سی مناسبتوں اور اہمیتوں کا حامل تھا وہاں پوری دنیا میں فلسطین کی مناسبت سے ایک اور دن بھی پہلے سے زیادہ شدت سے متعارف ہوا۔ اس سے قبل دنیا کے اکثر و بیشتر انسان صرف یوم القدس جیسے بڑے ایام کی معرفت رکھتے تھے لیکن تیس مارچ کو یوم ارض فلسطین کے موقع پر گلوبل مارچ کے انعقاد نے دنیا بھر میں ’’ یوم الارض فلسطین ‘‘ کو متعارف کروایا اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ دن اسرائیل کی پریشانیوں میں اضافے کا باعث بنا ہے اور مستقبل میں بنتا رہے گا۔ جہاں تک مستبل میں گلوبل مارچ کی بات ہے تو میں عرض کردوں کہ حال ہی میں گلوبل مارچ ٹو یروشلم کی انٹرنیشنل سینٹرل کمیٹی کا اجلاس مصر کے دارالحکومت قاہرہ میں منعقد ہوا ہے اور وہاں فیصلہ کیا گیا ہے کہ یوم نکبہ کے بعد جون میں گلوبل مارچ ٹو یروشلم ٹو کیا جائے گا جو کہ 7 جون کو متوقع ہے۔