سوال: شام کی صورتحال کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں؟
صابر کربلائی: شام جو کہ ایک قدیم تاریخی ملک ہونے کے ساتھ ساتھ مشرق وسطیٰ میں بڑی اہمیت کا حامل بھی ہے۔ دو سال قبل یا ڈیڑھ سال قبل شام میں شروع ہونے والی بغاوت کی اصل وجہ کیا ہے؟ حقائق کیا ہیں؟ کچھ عناصر شام کی موجودہ صورتحال کو انتہائی بگڑتی ہوئی صورتحال بتا رہے ہیں اور تاثر یہ دیا جا رہا ہے کہ شام میں بغاوت نہیں بلکہ انقلاب کی لہر آئی ہے اور اس انقلاب کو کچھ افراد تیونس،مصر اور دیگر ممالک کے انقلابوں اور اسلامی بیداری کی لہر سے ملانا چاہتے ہیں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا کسی انقلاب میں عوام ہی عوام کو قتل کر دیتے ہیں؟ میں ان تمام لوگوں سے پوچھتا ہوں جو یہ تاثر دے رہے ہیں کہ تیونس، مصر اور لیبیا سمیت یمن، بحرین کی طرح شام میں بھی عوامی اور اسلامی بیداری ہی کا اثر ہے۔ ایسے سب افراد کے لئے میں ایک سادہ سا سوال چھوڑنا چاہتا ہوں اور وہ سوال یہ ہے کہ کیا تیونس، مصر، یمن، بحرین میں عوام نے اسلحہ اٹھاکر اور عوام کا قتل عام کرکے انقلاب لائے ہیں؟ یقیناً پوری دنیا اس بات پر ایک ہی جواب دے گی کہ ’’ نہیں ‘‘ ایسا ہرگز نہیں ہوا۔ تیونس، یمن، مصر اور بحرین میں چلنے والی انقلابی تحریکیں وہاں پر سامراجی نظاموں کے خلاف تھیں۔ وہ سامراجی نظام جو امریکہ اور اسرائیل کے زیر تسلط تھے۔
تیونس کی حالت ہی دیکھ لیجئے کہ وہاں پر مسلمانوں کو اذان دینے پر پابندی تھی حالانکہ مسلمان حکمران تھے۔ اسی طرح غربت، افلاس اور معاشرتی قتل عام وہ بنیادیں بنی کہ جنہوں نے عوام کو جھنجوڑ کر رکھ دیا اور لوگ اپنے حقوق اور اپنی جانوں کے دفاع اور اپنی عزت و حمیت کی بقاء کی خاطر اسلام کے پرچم تلے جمع ہوئے اور دنیا کے باطل اور طاغوتی نظاموں کو اپنے پیروں تلے روندتے ہوئے چلے گئے۔ مصر میں کیا ہوا؟ کیا مصر میں شام کی طرح باغی گروہوں نے اسلحہ کے زور پر عوام کا قتل عام کیا؟ یا عوام نے اپنی عوامی طاقت سے تحریر چوک انقلاب کی داغ بیل ڈالی۔ مصر میں بھی عوام ذلت اور پستی کا شکار تھے، مغربی استعمار ان کا استحصال ان ہی کے حکمرانوں سے کروا رہا تھا جس کی وجہ سے عوام اٹھ کھڑے ہوئے اور سامراجی نظاموں کے پیروکاروں کو نکال باہر پھینکا۔
اسی طرح بحرین میں دیکھیں وہاں کیا ہو رہا ہے؟ وہاں کی حکومت مصر اور تیونس کی سابقہ دہشت گرد حکومتوں کی طرح عوام کا استحصال کر رہی ہے لیکن عوام کے درمیان بھرپور ہم آہنگی اور یکجہتی برقرار ہے اور اسی وجہ سے آج دو برس کا عرصہ گزر جانے کے بعد بھی منامہ کی سڑکیں اور گلیاں بحرین کے مظاہرین سے بھری ہوئی نظر آرہی ہیں لیکن ایک چیز جو ہمیں نظر نہیں آ رہی وہ باغیوں کے ہاتھوں میں جدید اسلحہ ہے جو استعمال نہیں ہو رہا ہے کیونکہ یہ تمام تحریکیں خالصتاً اسلامی بیداری اور انقلابی تحریکیں ہیں جن میں دہشت گردی کا عنصر موجود ہی نہیں ہے۔ بحرین میں کوشش کی جا رہی ہے کہ کسی طرح فرقہ وارانہ بنیادوں پر عوام کو تقسیم کیا جائے اور اس انقلابی تحریک کو سبوتاژ کیا جائے لیکن بحرین میں بسنے والی تمام اکائیاں بحرین میں موجود امریکی و اسرائیلی ایجنٹ حکمرانوں سے تنگ آ چکی ہیں اور حکومت کے خاتمے کا مطالبہ کر رہی ہیں۔ یاد رہے یہاں پر دو سال کی تحریکی تاریخ میں عوام نے کسی قسم کا تشدد والا راستہ اختیار نہیں کیا ہے جبکہ حکومت کی جانب سے ایسے اقدامات کئے گئے ہیں کہ جو تاریخ میں انسانیت کے منہ پر سیاہ دھبے کی مانند ہیں۔
اب ذرا شام کی صورتحال پر غور کیجئے! شام میں بغاوت کو انقلاب کہنے والوں کو یہ ضرور معلوم ہونا چاہئیے کہ شام میں آخر ایسا کھیل کیوں کھیلا جا رہا ہے اور اس کے پس پردہ عناصر اب تو کھل کر بھی سامنے آچکے ہیں۔ شام کی صورتحال کے خراب ہونے کا ایک الگ ہی پس منظر ہے۔ شام جو کہ لبنان کی سرحد کے ساتھ موجود ہے اور زمینی راستہ بھی ہے۔ شام کی خارجہ پالیسی کی مماثلت ایران اور لبنان سے پائی جاتی ہے جس میں غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کی نابودی اور فلسطین و مسجد اقصیٰ و بیت المقدس کی آزادی بنیادی عنصر کے طور پر موجود ہے۔ شام اور ایران کے اچھے تعلقات ہونے کے ساتھ ساتھ لبنان میں موجود اسرائیل اور امریکہ مخالف تنظیم حزب اللہ کے ساتھ بھی شام کی اچھے تعلقات ہیں اور ان تعلقات کا مرکز و محور صرف اور صرف فلسطین کی آزادی اور فلسطینیوں کا حق ان کو دلوانا ہے۔ غرض یہ کہ شام کی حکومت ایک ایسی حکومت ہے جو امریکی کٹھ پتلی نہیں بلکہ امریکہ مخالف اور بالخصوص اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ اسرائیل کا وجود غیر قانونی ہے لہذٰا اسرائیل کو نابود ہونا چاہئیے اور فلسطین کو آزاد ہونا چاہئیے۔ فلسطین جو کہ نہ صرف عربوں بلکہ مسلم امہ اور پوری انسانیت کا ایک ایسا اہم ترین مسئلہ ہے جو گزشتہ 65 برسوں سے حل طلب ہے اور فلسطین میں غاصب اسرائیل کی بربریت اور ظلم کی داستانیں پوری دنیا اچھی طرح سے جانتی ہے۔
سنہ 2003ء میں امریکی وزیر خارجہ کولن پاؤل عراق سے اپنے دورے کے بعد شام پہنچے اور شام کے صدر بشار الاسد سے ملاقات کے دوران انہوں نے بشار الاسد سے مطالبہ کیا کہ شامی حکومت دمشق میں فلسطین کی آزادی کی جنگ لڑنے والی اسلامی مزاحمتی تحریکوں بشمول ’’ حماس، جہاد اسلامی اور حزب اللہ ‘‘ کے دفاتر کو بند کر دے اور ان کے مجاہدین کو امریکہ کے حوالے کر دے۔ کولن پاؤل کے جواب میں بشار الاسد نے کہا کہ یہ امریکہ کا خواب ہے، شام کسی صورت بھی فلسطین کی حمایت سے دستبردار نہیں ہوگا اور فلسطین کی آزادی کی جنگ لڑنے والی فلسطینی تنظیموں جن میں حماس، جہاد اسلامی اور حزب اللہ شامل ہیں ان کے خلاف کسی بھی قسم کی کوئی کاروائی نہیں کی جائے گی ان کے دفاتر جس طرح پہلے کام کر رہے تھے اسی طرح کرتے رہیں گے۔ یہ وہ پہلا موقع تھا کہ جب امریکہ کو براہ راست مشرق وسطیٰ میں اپنے ناپاک مقاصد میں واضح اور بڑی ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔
اسلام ٹائمز: حال ہی میں شام میں باغیوں نے صحابی رسول اکرم (ص) حجر ابن عدی کے روضہ مبارک کو مسمار کر دیا اور ان کے جسد مبارک کو لے گئے، اس حوالے سے آپ کیا کہنا چاہتے ہیں؟
صابر کربلائی: یہ ایک انتہائی افسوس ناک اور دردناک واقعہ ہے جس پر ہر مسلمان کا دل خون کے آنسو رو رہا ہے اور اس عظیم سانحہ کی جس حد تک مذمت کی جائے اور اس پر جتنا غم کیا جائے شاید کم ہے۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ کرام کے روضہ مبارک کو شہید کرنا اور پھر قبر مطہر سے جسد مبارک کو نکال کر توہین کرنا در اصل شیطانی قوتوں کے پروان چڑھائے ہوئے دہشت گردوں کا کارنامہ ہے جو نہ تو اسلام کے دوست ہیں اور نہ مسلمانوں کی بہتری چاہتے ہیں، یہ عالمی دہشت گرد امریکہ اور اسرائیل سمیت مغربی استعماری قوتوں کے نمک خوار ہیں اور ان کی خوشنودی کی خاطر کسی بھی قسم کے سنگین اقدام سے گریز نہیں کرتے۔
میں یہاں پر یہ بھی کہنا چاہوں گا دنیا کو آل یہود کی تاریخ کو فراموش نہیں کرنا چاہئیے۔ بنی اسرائیل کی تاریخ اس طرح کے سیاہ کرتوتوں سے بھری پڑی ہے، یہ وہی آل یہود ہیں کہ جنہوں نے اللہ کی طرف سے بھیجے گئے پیغمبروں اور انبیاء علیہم السلام کو بھی قتل کرنے سے دریغ نہیں کیا تھا تو آج ان کی اولادیں ان ہی کے نقش قدم پر چل رہی ہیں اور جس کا نتیجہ ہمیں پہلے شام میں موجود دیگر مزارات مقدسہ کی توہین کے نتیجے میں سامنے اور حال ہی میں انتہائی سنگین جرم کہ جس میں صحابہ رسول اکرم (ص) حضرت حجر ابن عدیؓ کے روضہ مبارک کی توہین اور ان کے جسد مبارک کو قبر مطہر سے نکال لینا ہے۔ میں واضح طور پر یہ سمجھتا ہوں کہ اس دہشت گردانہ اور انسانیت سے گری ہوئی دہشت گردی کی کاروائی میں عالمی دہشت گرد امریکہ اور اس کی ناجائز اولاد اسرائیل براہ راست ملوث ہیں۔ پوری دنیا کے مسلمانوں اور باضمیر انسانوں کو چاہیے کہ ان درندوں کے خلاف سراپا احتجاج بن جائیں۔