مرکز اطلاعات فلسطین کے مطابق اپنے ایک بیان میں عزت الرشق نے مغربی ممالک کے طرز عمل اور پالیسیوں پر شدید تنقید کی اور استفسار کیا کہ کیا یہ انصاف ہے کہ ایک مجبور و لاچار اور اپنے دفاع میں ہتھیار اٹھانے والے کو ظالم قرار دیا جائے اور پوری قوم کے اجتماعی قتل عام میں ملوث ریاست کو مظلوم ثابت کیا جائے۔ مغرب آج تک اسی دوغلی پالیسی پرعمل پیرا رہا ہے۔ چھیاسٹھ برس سے مغرب فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل کے جنگی جرائم کی حمایت کرتا رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اسرائیل غزہ کی پٹی میں عالمی ادارے کے مراکز، انسانی بحالی مرکز، اسپتالوں، اسکولوں ، مساجد اور ڈسپنسریوں پر کھلے عام بمباری کررہا ہے۔ اس پر کسی مغربی ملک کی جانب سے حرف مذمت تک نہیں آیا اور فلسطینیوں کو دہشت گرد تک قرار دیا جاتا ہے، کیا یہ انصاف کا قتل عام نہیں ہے۔
عزت الرشق نے جرمن چانسلر انجیلا میرکل کے بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے استفسار کیا کہ کیا کہ محترمہ میرکل کو نہتے فلسطینی بچوں کا قتل عام ، غزہ کی پٹی میں ساحل سمندر پر کھیلتے بچوں کو بمبوں سے شہید کرنا بھی انصاف ہے۔ محفوط اور پرامن مقامات اور گھروں پر بمباری کرنا شہریوں کو مکانوں کے ملبے میں دبا دینا بھی ان کا انصاف ہے۔
انہوں نے کہا کہ اسرائیل نے عالمی سطح پر ممنوعہ سیرین گیس کا کھلے عام استعمال شروع کر رکھا ہے۔ کیا کیمیائی ہتھیاروں سے نہتے فلسطینیوں کا قتل عام کرنے والوں کے لیے ایک مذمتی لفظ بھی نہیں بولا جا سکتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ مغرب خود کو مہذب اور انسانی حقوق کا ہمدرد خیال کرتا ہے۔ یہ کون سی تہذیب وتمدن اور انسانیت ہے کہ آپ ظلم اور انصاف میں فرق تک نہیں کر سکتے۔ میں سمجھتا ہوں کہ مغرب روشنی میں نہیں بلکہ اندھیرے میں ہے اورتہذیب وتمدن سے آشنا نہیں بلکہ جنگل میں رہتا ہے۔