مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق قطری وزارت خارجہ کی جانب سے جاری ایک بیان میں غزہ کی کے لیے امدادی قافلے”فریڈم فلوٹیلا 3 ” میں شامل امدادی کارکنوں کے ساتھ مکمل یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے قافلے میں شامل سویڈن کے بحری جہاز”میرین” کو کھلے سمندر میں روکے جانے اور اس میں سوار امدادی کارکنوں کو یرغمال بنائے جانے کی شدید مذمت کی ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل پہلے ہی غزہ کی پٹی کے عوام پر بری، بحری اور فضائی ناکہ بندی کرکے عالمی قوانین کی سنگین خلاف ورزی کا مرتکب ہوا ہے۔ محصورین کے لیے آنے والے امدادی جہاز کو روکنا صہیونی جارحیت کے تسلسل کی کڑی ہے۔
دوحہ حکومت نے اسرائیلی حکومت سے ڈاکٹر منصف المرزوقی سمیت تمام یرغمالیوں کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔ بیان میں عالمی برادری سے بھی اپیل کی گئی ہے کہ وہ اسرائیلی جارحیت کی نذرہونے والے امدادی جہاز کوغزہ پہنچانے اور یرغمال بنائے گئے امدادی کارکنوں اور سیاسی رہ نمائوں کی فوری رہائی کے لیے اسرائیل پردبائو ڈالے۔
خیال رہے کہ اسرائیلی حکومت نے گذشتہ روز غزہ کی پٹی کے محصورین کے لیے امدادی سامان لانے والے بحری قافلے” فریڈم فلوٹیلا 3 ” میں شامل سویڈن کے جہاز "میرین” کو غزہ کے قریب سمندر میں روک لیا تھا جس کے بعد امدادی جہاز کو اسدود کے فوجی اڈے کی طرف لے جایا گیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق جہازمیں سوار تیونس کے سابق صدر سمیت کئی اہم امدادی کارکنوں کو یرغمال بنانے کےبعد ان سے پوچھ گچھ جاری ہے۔
واضح رہے کہ اسرائیلی فوج نے گذشتہ نو سال سے غزہ کی پٹی کی بحری ،بری اور فضائی ناکا بندی کررکھی ہے اور وہاں بری اور بحری راستے سے کوئی بھی امدادی سامان لے جانے کی اجازت نہیں ہے۔اسرائیلی فورسز محصور فلسطینیوں کی امداد کے لیے ایسی کسی بھی کوشش کو ناکام بنا دیتی ہیں۔
انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی بین الاقوامی تنظیمیں اور یورپی ممالک سے تعلق رکھنے والے باضمیر سیاسی کارکنان پہلے بھی اسرائیل کی ناکا بندی کو توڑنے کی کوشش کر چکے ہیں لیکن انھیں ہر مرتبہ ہی ناکامی کا منہ دیکھنا پڑتا ہے۔مئی 2010 ء میں بحر متوسط میں ترکی کی جانب سے بھیجے گئے امدادی قافلے پر اسرائیلی فورسز نے دھاوا بول دیا تھا جس کے نتیجے میں دس ترک کارکنان شہید اور پچاس زخمی ہوگئے تھے۔اس واقعے کے بعد سے اسرائیل اور ترکی کے درمیان کشیدگی چلی آرہی ہے۔
بشکریہ:مرکزاطلاعات فلسطین