فلسطین، لبنان، شام، عراق، اور دیگر عرب ملتوں کو اپنے وطن سے کہیں جانے کی ضرورت نہیں، ہمارا دشمن ہی ذلیل و رسوا ہوگا۔حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصر اللہ کے خطاب کا مکمل متن
ترجمعہ : ٹیم ماہنامہ وائس آف فلسطین پاکستان :جمعة 15 اگست 2014
بسم اللہ الرحمن الرحیم!
السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ:
آج ہم صبرواستقامت،مزاحمت،عظیم کامیابی اورتاریخی رزم کے سالگرہ کے موقع پریہاں جمع ہوئے ہیں۔
اس اہم مناسبت پر ہمیں سب سے پہلے خداکاشکراداکرنا چاہئیے کہ اس نے ہم سے بلاءکو دفع کیا،دلوں کو مضبوط کیا،عقلوں کی ہدایت کی،اورلبنان،لبنان کی عوام،لبنان کی مزاحمت اورلبنان کی فوج کو فتح وکامرانی سے
نوازا،درحقیقت یہ کامیابی پوری امت کی کامیابی ہے،خداکی یہ نعمت پوری امت کے لئے ہے جس نے اس جنگ میں ثابت قدمی دکھائی،اورہم خداکی تمام اور بے شمارلطف وکرم،نعمتوں کے شکرگزارہیں۔
آج کی رات ہمیں اپنے شہداءکی ارواح کابھی شکرگزارہونا چاہئیے جنہوں نے اپنے خون کی قربانی اس لئے پیش کی تاکہ ہم عزت وکرامت کے ساتھ زندگی گزاریں،اوران کے بھی شکرگزارہیں جو اب بھی یکے بعداپنی بہادری پیش کررہے رہے ہیں،آج کی رات ہمیں خاص طورسے شہیدالحاج ابراہیم،برادرابومحمد سلمان اور جنہوں نے سرحدی علاقہ شہرعیتا کے عوام کے لئے 33روزتک صبرواستقامت کے ساتھ مجاہدانہ قیادت کافریضہ انجام دیا،ہماراسلام ہو شہدائے مزاحمت کے تمام جماعتوں پر،عوامی شہداء،آرمی اورسکیورٹی اداروں کے شہداء، شہری دفاع اور میڈیا کے شہداءاوروہ تمام افرادجواس جنگ میں شہید ہوئے،ہمارا سلام ہوان تمام وفادارزخمیوں پراوروہ جن کواپنے وطن سے جبراً نکالا گیا، لیکن اپنے خاندان کی طرف لوٹنے کے لئے پرامیدہیں،ہماراسلام ہوان رہنماوں پرجنہوں اس فتح ونصرت کوحاصل کرنے کے لئے ہماراساتھ دیا،اورہران ممالک اوران کے عوام کے بھی شکراگزارہیں جنہوں نے ہمارے ساتھ یکجہتی کااظہارکرنے کے ساتھ ساتھ ہمارے ساتھ تعاون کیا،اورخاص طورسے ان کا جنہوں نے تمام ترخطرات کے باوجود ہمارے ساتھ تعاون ویکجہتی کا مظاہرہ کیا، ان سے میری مراد اسلامی جمہوریہ ایران اور شام ہیں،لیکن اس تاریخی رزم کوکامیاب کرنے میں خداکے بعدوہ تمام بہادرمزاحمت کارہیں جنہوں نے ہرموقع پرشجاعت وبہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے دشمن کے جنگی ٹیکنیکوں کوخاک میں ملادیا اورمعرکے کو زمینی جنگ میں تبدیل کیا جس میں نہ وہ پیچھے ہٹے،نہ کمزوری دکھائی اوردشمن کے تمام ترشدید حملوں کے باوجودوہ ثابت قدم رہے،اورآخرکاران بہادروشجاع مزاحمت کاروں نے دشمن کی چیخ وپکارنکال دی اورامریکہ کو جنگ بندی کی بھیک مانگنے پرمجبورکیا،تویہ وہ تاریخی نصرت خداوندی ہے جو جولائی2006ءکی جنگ میں ہمیں حاصل ہوئی۔
آج ہمیں اپنے مقاومتی قائدین کو یاد کرنا چاہئیے خاص طورسے شہدائے مقاومت کے سردارسیدعباس موسویؒ،شیخ راغب حربؒ اور شہید قائدؒجن کااس جنگ میں بہت بڑاکردارہے الحاج عماد مغنیہ ؒاوروہ تمام جنہوں نے اس مقاومت کودن بدن نسل درنسل قائم رکھا،اورہمیں آج اس مقاومت کے بانی امام سیدموسی الصدرؒکوبھی یادکرناچاہئِے۔
میرے عزیزبرادران وخواہران: جیساکہ آپ کو معلوم ہے جولائی کی33روزہ جنگ کے حوالے سے بہت کچھ کہا گیا،بہت سارے لیکچرزدیئے گئے سو اس وقت خطے اورپوری دنیا کے ہمارے دشمن،دوست اورہمارے پاس بہت ساری کتابیں،تحقیقات،رسالے موجودہیں،مزید یہ کہ اب تک اس جنگ کے نتائج،اثرات کے حوالے سے ہرسطح پربحث وگفتگو،تبصرے اور تحقیقات جاری وساری ہیں،
اس لئے یہ کوئی عام سی جنگ یا حادثہ نہیں تھا،بلکہ یہ ایک حقیقی جنگ تھی جس کے طول وعرض سیاسی، اخلاقی اور معاشی اور تاریخی حوالے سے بڑے مقاصدہیں جولبنان اور فلسطین سے باہرہرعلاقے میں بلکہ بین الاقوامی مساوات کے لئے ہیں،اس کے لئے اس وقت کے سابق امریکی وزیرخارجہ کونڈولیزارائس کابیان کافی ہے جس نے جولائی جنگ کے بارے میں کہا تھا” یہ دراصل ایک نئے مشرق وسطیٰ کی پیدائش ہے”،اس لئے یہ ایک ایسا موضوع ہے جس کے ساتھ علاقائی اوربین الاقوامی مقاصد وابستہ ہیں،جنگ کے بعد انٹرویوز،تحقیقات،کتابوں اور مختلف ممالک کے رہنماوں،جنریلوں اور وزرائے خارجہ نے اپنی یادداشتیں لکھی ہیںاورخاص طورسے جومعلومات اوردستاویزات اسرائیلیوں،امریکیوں نے پیش کی ہیں،اوراسی طرح مجھے خودایک بڑے امریکی دانشور نے کہاجوکوئی ڈھکی چھپی بات نہیں سب کو معلوم ہے اورانہوں نے کئی مضامین میں اسے لکھا بھی ہے۔
دراصل جولائی کی جنگ بڑے مقاصد کے تسلسل کابنیادی حصہ تھا وہ یہ کہ سب سے پہلے 2006ءمیں لبنان سے مقاومت کا جڑسے خاتمہ کرناتھا،صرف غیرمسلح کرواکراس کی بنیاد اوراشخاص کوباقی رکھاجائے تاکہ دوبارہ اس کاقیام ممکن ہو ایسا نہیں تھا،بلکہ ان کا مقصد مقاومت کوجڑسے ہی ختم کرکے رہنماوں اورمجاہدوں کوقتل یا گرفتار کرنا تھا،جیساکہ آپ کو یاد ہوگا اس وقت اسرائیل شمالی علاقے کی بستیوں میں 10000قیدیوں کے لئے جیل بنارہاتھایہ وہ حقائق ہیں جواگرلبنانی مقاومت کی مخالفت کرنے کی صورت میں حاصل ہونے تھے،جن پرمیں تبصرہ نہیں کرتاہوں۔
بعدازآں شام مقاومت کے ساتھ کھڑاہوا اوراسے راکٹ سمیت دیگرہتھیار دے دئیے گئے ،اسی لئے اسرائیل نے شام کی حکومت کو گرانے کے لئے اس پرچڑھائی کی تھی تاکہ اپنے من پسند اورامریکہ نوازحکمران لاسکے۔
میں آپ کے سامنے 2006کی تمام باتیں بتاناچاہتاہوں جوعراق پر قبضے کے بعدامریکی فوج نے اس خطے میں حاصل کیں۔
اس سلسلے کی تیسری کڑی فلسطینی مقاومت پراورخاص طورپرغزہ کی پٹی پرحملہ ہے،جن لوگوں نے یہ سب معلومات فراہم کی ہے انہوں نے کہا ہے کہ یہ مفروضہ2006ءکی جنگ سے پہلے لبنان پرنافذکرناتھا،کیونکہ اس وقت امریکی کانگریس کے مڈٹرم الیکشن ہوررہے تھے جس میں صدر جارج بش اورنوآموزقدامت پسند قانون سازی کے انتخابات میں 3بنیادی ایجنڈے کو شامل کرناچاہتے تھے، جن میں لبنانی مقاومت،فلسطینی مقاومت اور شام کی حکومت کو گرانا شامل تھا۔
اسی لئے جولائی جنگ سے پہلے امریکی میڈیا یہ دیکھ رہا تھا کہ حزب اللہ ،حماس اورشام حکومت دہشت گردی کے دائرے میں بڑی تیزی سے محدود ہوتے جارے تھے،جبکہ یہ سب کچھ ایک پروپیگنڈاتھا،اگر یہ تینوں بنیادیں ختم ہونے کی صورت میں پھر صدربش آکرامریکیوں سے یہ کہنا تھا کہ یہ دیکھو میں نے تمہارے ان تین بین الاقوامی دہشت گردوں کا خاتمہ کیاہے،لہذا اب مجھے آپ لوگ ووٹ دیں، میں ہی امریکہ کے مستقبل کا ضامن ہوں،امریکی کانگریس جیتنے کے بعد اگلا قدم 2007 میں ایران کے خلاف جنگ اور اسلامی جمہوریہ کی حکومت کے خاتمے کے لئے تیاری کر رہی تھی،میں اس کی تاریخ میں نہیں جانا چاہتا،اس ٹریک کے دواہم مقاصدہیں۔
پہلاہدف: امریکہ کا خطے میں تمام تیل،گیس اورتوانائی پرکنٹرول کرنا ہے،جیساکہ ابھی عراق پراس کا قبضہ ہے،سویہاں سے وہ مقاومت پرحملہ کرے گا،ایران کی اسلامی حکومت کو گرائے گا۔ اوراپنا قبضہ جمائے گا،اورخلیج میں وہ پہلے سے موجود ہے،جہاں دنیا کے اہم توانائی مصادر موجود ہیں۔
دوسرا ہدف: یہاں فلسطینی مسئلے کو ختم کرنے اور فلسطینیوں اور اسرائیل کے حالات پر عربوں پر ایک بستی کو مسلط کرنے کی حقیقی مزاحمتی تحریکوں، خاص طور پر ایران اور شام کو نشانہ بناناہے۔
یہ منصوبہ کیسے معطل ہوا؟ کس نے روک دیا؟ اورکیوں رک گیا؟
لبنان کی مزاحمتی تحریک،لبنانی ثابت قدمی اور جن کا میں نے شروع میں شکریہ ادا کیا اور جولائی کی جنگ میں مقاومت کی فتح نے اس منصوبے کوختم کیایا اسے روک دیا ہے۔
کیوں؟ اس لئے کہ جیساکہ میں نے اس حوالے سے یوم القدس کے دن کہا تھا،اور اب دوبارہ بتادیتاہوں، ہم اس وقت غزہ،اس کی مقاومت اور عوام سے مخاطب ہیں،اس لئے کہ یہ وہ میدان ہے جس نے اسرائیل کو چیخنے پرمجبورکیا،جب وہ فضائی اور زمینی حملوں میں ناکام ہوا،اس لئے کہ میدانی تبدیلیوں کے نتیجے میں جوخطرات ظاہرہوئے تھے جس میں اسرائیل ایک ایسی جگہ پرپہنچ چکا تھا جہاں پراسے بڑافوجی نقصان ہواتھا،تو فوراًاس نے امریکہ سے جنگ بندی کی اپیل کی،اس وقت جو کچھ نیویارک میں وزرائے خارجہ اور عرب رہنماوں کے درمیان ہورہا ہے وہ اسی بات کی طرف اشارہ کرتاہے۔
تو پہلے مقاومت کی میدان جنگ میں ثابت قدمی ہے جبکہ دوسرے مرحلے پرعوام کی ثابت قدمی یہ ہے کہ اس نے مقاومت کی حمایت کی ہے،اس کے باوجود کہ ہمارے اندر بڑے سیاسی مسائل ہیں، لیکن ہماری سیاسی ثابت قدمی کے نتیجے میں امریکہ،اسرائیل،سلامتی کونسل اور یورپی یونین کوبہت ساری شرائط کوختم کرنے پرمجبورکیا جنہیں انہوں نے پہلے ہفتے،دوسرے ہفتے اورتیسرے ہفتے میں جنگ بندی کے لئے لگانا تھا ۔
نتیجہ کاکیا نکلا:
سب سے پہلے تو لبنان کی مزاحمتی تحریک باقی رہی جسے وہ ختم نہیں کرسکا،نہ ہی غیرمسلح کیاجاسکا،بلکہ لبنان میں مزاحمتی تحریک کی اورعظمت بڑھ گئی۔
دوسری بات: اسرائیلی جنگ شام تک نہیں پہنچ سکی اس لئے کہ وہ لبنان میں ہی شکست سے دوچارہوئی،
تیسری بات لبنان کی جنگ سے کچھ حاصل نہیں ہوایا غزہ کی پٹی پرمجوزہ حملہ2006ءسے موخرہوگیا،لبنان کی جنگ سے پہلے غزہ کی پٹی پر فضائی حملے ہوئے تھے،اورکم ازکم 2008ءتک وہ موخر ہوئے۔
بلکہ عراق میں امریکی قبضے کے خلاف بھی مقاومت اٹھ کھڑی ہوئی،جسے بعد میں عراق میں سیاسی ثابت قدمی،مقاومت اورارادہ حب الوطنی نے امریکہ کووہاں سے نکلنے پرمجبورکیا،سو یہ منصوبہ بھی ناکام ہوا اس کامطلب یہ نہیں کہ امریکی مقاصد ختم ہوئے اس لئے ہمیں ہمیشہ یہ بات پیش نظر رکھنی چاہئیے کہ خطے میں امریکی مفاد موجود ہیں.
اس لئے کہ وہ ان اہداف کوحاصل کرنے کے لئے منصوبہ بندی کرتے رہتے ہیں جب ایک منصوبہ ناکام ہوجائے تودوسرا،پھر تیسرا،چوتھا۔۔۔ منصوبہ پرکام کرنے لگتاہے یہاں تک کہ خطے میں امریکی صہیونی تمام منصوبہ جات بالکل ختم ہو لیکن کہا جاتاہے لیکن پھربھی امریکی منصوبہ موجود رہتاہے جن میں سے ایک اسرائیل ہے جو ہمیشہ اس کے لئے حتی الامکان کسی نہ کسی منصوبے کی تلاش میں رہتاہے۔
اسرائیل یہ جنگ ہارگیا: ہم یہ بات اس لئے کررہے ہیں تاکہ ہم آج کے اصل بحث میں داخل ہوسکیں،دوسری یہ کہ ہم سیاسی اورتاریخی فتح کویاددلاسکیں جوجولائی کی جنگ میں حاصل ہوا تاکہ یہ واقع فراموش نہ ہو۔
لبنان،لبنانی عوام،لبنانی مقاومت اور فوج وغیرہ ہرکسی نے اس تاریخی کامیابی میں اپنا حصہ ملایا،اوراسے عظیم تاریخی،سیاسی،عسکری،فکری،ثقافتی،اخلاقی اورانسانی کامیابی قراردیا،ان کے اثرات ابھی تک باقی ہیں۔
آج ہم تمام موجودہ اورآنے والے خطرات پریہ واضح کرتے ہیں کہ ہم ان تمام خطرات کے ساتھ مقابلہ کرسکتے ہیں اور ہمارے خطے،ملک،عوام اورمقدسات کے خلاف ہونے والی سازشوں کو ختم کردیں گے،کیونکہ جولائی کی جنگ میں امریکہ اپنے تمام ترطاقتی عناصرکولے کرکودا تھا بلکہ میرا یہ دعویٰ ہے کہ امریکہ اس وقت اپنی طاقت کے بڑے عروج پرتھا جہاں 2001 اور2002 میں اس کے پاس دنیا کی سب سے بڑی طاقت تھی،اس لئے اس دوران امریکہ نے عسکری،دفاعی،سیاسی،میڈیا کے میدان میں بڑی ترقی کی تھی۔
علاقائی اور بین الاقوامی حالات اس کے حق میں تھے اس لئے کہ اس وقت نہ کوئی سویت یونین نہ ان کی چھاﺅنی اورنہ عرب دنیا تھی بلکہ اس وقت سب کے سب امریکہ کے سامنے بے بس تھے۔
آج غزہ میں جو بھی اسرائیلی حملے ہورہے ہیں ہمارے خیال میں وہ سب ایک نئے منصوبے کاحصہ ہے،اس لئے کہ اب خطے کے اندرکافی ترقیاں اورتبدیلیاں واقع ہوچکی ہیں جن کے اسباب مختلف ہیں، لیکن تمام عرب خطے ایک نئی صورت حال میں داخل ہوچکے ہیں۔
تواس نئی صورت حال میں امریکہ نے اپنے مقاصد کے حصول کے لئے نئے منصوبے ترتیب دئیے ہیں جوان کا خطے پرکنٹرول کرکے تیل حاصل کرنا،اسرائیل کے منشا کے مطابق مسئلہ فلسطین کاحل کرنا ہے جو پرانے مقاصد ہیں۔
اب غزہ میں جوکچھ ہورہا ہے وہ اس نئے منصوبے کاحصہ ہے جواس نے جنگ سے پہلے شروع کیاتھا اس میں بھی ماضی کی طرح 2عنصرہیں،ماضی میں جیساکہ میں نے کہا تھا کہ امریکی فوج کاعراق پرقبضہ پھراس دوران خلیجی ممالک کوکنٹرول کرنا تھا،دوسری بات اسرائیل،اسرائیلی فوج اور اسرائیلی جنگ ہے۔
آج امریکہ عراق سے نکلنے اور افغانستان میں رسواہونے کے بعد خطے سے فوج کوواپس بلانے سے سخت خوف زدہ ہے،اسی لئے جب بھی عراق میں مداخلت کی بات کی جاتی ہے توصدراوباما، وزیرخارجہ اوروزیردفاع جلدی سے بولتے ہیں:”نہیں، ہم زمینی فوج ہرگزنہیں بھیجیں گے” یہ بات تمام صورت حال کوبیان کرتی ہے۔
آج اس نئے منصوبے میں 2عامل کارفرما ہیں، میں یہاں پرآپ کے سامنے چنداموربیان کرناچاہوں گا،اگرہم ذراسا اپنے دلوں اورعقلوں کو کھول دیں کیونکہ ہم لبنان میں رہتے ہیں،ایک ایسے علاقے میں جہاں پرہر جگہ خطرہ موجود ہے،یہاں پرہم اس کی خصوصیات،کمالات کی زیادہ یاکم کے بارے میں بات ہرگزنہیں کریں گے،ہم صرف خطرے کے موجودہونے پر بات کریں گے،
اب اس نئے منصوبے کے اندرموجود2عناصرکی طرف آتاہوں،یاد رکھیں یہ نیا منصوبہ پرانے والے سے زیادہ مشکل اور خطرناک ہے،اس لئے کہ اس میں نظاموں کو گراکرمتبادل نظاموں کوقائم کرنا نہیں ہیں،اس منصوبے میں جب ایک نظام گرجاتا ہے اوراس کے متبادل جو حکومت آتی ہے اس میں ایک ادارے کے طور پر رہتی ہے، ریاست کی سرحد اور سماجی رابطے باقی رہتے ہیں، فوج باقی رہتی ہے، لیکن اس میں ایک حکومت کر گراکر دوسری حکومت قائم کرنا ہوتاہے۔
اس جدید منصوبے میں پورے ملک،فوج،عوام اور پوری وجود کو صفحہ ہستی سے مٹانا ہے، اس کے لئے کسی دلیل کی ضرورت نہیں، آپ کو معلوم ہے یہ امریکہ اوراسرائیل کا منصوبہ ہے، جس میں وہ اس خطے کو دنیا کے نقشے پر ہی تبدیل کرنا چاہتے ہیں،لیکن پہلی اوردوسری عالمی جنگ عظیم کے بعدیہ نقشہ ایک ایسے ویرانے میں تبدیل ہوگا جہاں کی عوام بکھری ہوئی ہوگی یہاں کھنڈرات ہی کھنڈرات ہوں گے یہاں گھروں کے دیواروں کے نشانات ہی باقی رہیں گے وغیرہ،خطے میں ان حادثات کے اثرات سے عقلیں حیران ہوں گی، اورہم اپنے آپ سے پوچھیں گے کہ ہم کہاں جائیں؟ کیا کریں؟ اب ہمارے پاس کرنے کو کیا بچا ہے؟ جیساکہ اس وقت سنجار کے علاقے میں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ یہ علاقہ امریکی ہے یاعراقی؟ میں بھول چکاہوں، شاید یہ عراق کا علاقہ ہو، جب یہاں کی عورتیں اپنے بچوں کواٹھائے دربدرپھررہی ہیں،ان کی طرف غورسے دیکھیں،یہ تمہاری عورتیں اوربچے ہیں،اب تمہیں سمجھ میں آئے گا کہ نیا نقشہ کیسے بنے گا،انہی بکھری ہوئی قوم پر بنے گا،ہم سب ایک بڑے نقصان کی طرف جارہے ہیں جس سے بچنے کے لئے ہم ہربات ماننے کے لئے تیارہوں گے،لیکن اب بھی وقت ہے کہ ہم ان بڑے خطرات سے اپنے آپ کو بچائیں،اس مصیبت سے آگاہی حاصل کریں،تم عنقریب اپنے مقاصد میں کامیاب ہوجاﺅگے،ہم ہر مشکلات چاہے وہ امن وامان کے حوالے سے ہوں یا سیاسی،اقتصادی،فکری عقلی جو بھی ہوں یا اس سے بھی زیادہ برا ہوں سے ہم ان سے تمہیں بچانے کے لئے حاضرہیں۔
اچھا اس جدید منصوبے کے بنیادی عناصرکون کون سے ہیں؟
ان میں ایک اسرائیل ہے جیساکہ میں نے بتایا کہ اس نے غزہ کے اندرجو تباہی پیداکی ہے،اوران کے اصلی مقاصد جنہیں فلسطینی برادران نے بتایا کہ مزاحمت پر حملہ،اسے غیرمسلح کرانا،اس کی بنیاد کوختم کرنا،لوگوں کے پاس سے اس کانام تک ختم کرانا، غزہ والے سرتسلیم خم کرنا اور ملبے کے ڈھیرکے علاوہ کچھ باقی نہ بچنا ہے۔
دوسراعنصرتکفیری جماعت ہیں جن میں اس وقت سرفہرست داعش ہے،یہ وہ جدیدمنصوبے ہیں جن کے بارے میں مزیدبات کروں گا،اب یہاں پر ایک سوال آتا ہے کیا ہم اس منصوبے کوشکست دے سکیں گے؟
جی ہاں: میں لبنانیوں،شامیوں،عراقیوں،فلسطینیوں اورخطے کے تمام لوگوں سے یہ کہنا چاہتاہوں: جی ہاں: ہم پہلے کی طرح اس جدید منصوبے کوبھی شکست دے سکتے ہیں،لیکن آرزو،عمل، خداکی مددکی دعا اورعمل اوریہ چند شرائط کے متقاضی ہیں جوجہد مسلسل سے ہی ممکن ہے۔
یہاں پر میں دوباتیں کہنا چاہوں گا،جی ہاں: ہم اس جدید منصوبے کو شکست دے سکتے ہیں،
پہلی بات: سب سے پہلے ہمیں اس خطر ے کے وجود کواچھی طرح سمجھنے کی ضرورت ہے کہ کیا اس شکل وصورت میں خطرہ ہے بھی یانہیں یا ایسی ہی افواہ ہے؟
دوسری یہ کہ کیا یہ خطرہ واقعی خطرناک ہے یا کوئی مضحکہ خیزمفروضے پرمبنی ہے؟
سب سے پہلے ہمیں اس خطرے کے تمام جہات،امکانیات اور اندازوں کواچھے طریقے سے سمجھنا نہایت ضروری ہے تاکہ بعد میں ہم یہ نہ کہہ بیٹھیں کہ وہاں تو کچھ بھی نہیں تھا،لہٰذا ہمیں افراط اورنہ ہی تفریط سے کام نہیں لینا چاہئیے بلکہ معاملے کواچھی طرح بھانپ کر قدم اٹھانا چاہئیے۔
جی ہاں: اس لئے کہ ممکن ہے لبنان میں اگرآپ کواچانک کسی ایسے خطرے کا سامنا کرناپڑے جس سے بچنے کے لئے آپ کے پاس کوئی حکمت عملی موجود نہ ہو،توآپ کوایسی پشیمانی ہوگی جو آپ کو کبھی نہیں بچاپائے گی،اس لئے کہ اب آپ کے پاس وقت بھی نہیں ہے جوایک بڑی غلطی ثابت ہوگی۔
ایسا بھی نہیں ہے کہ آپ نے خطرے کو حقیقت سے کچھ زیادہ ہی سمجھ لیا ہو جس کی وجہ سے خواہ مخواہ خوف ودہشت،مایوسی،شکست کاڈر وغیرہ میں پڑ جائیں ، اس سے عموما ایسا ہوتا ہے کہ لوگ پریشان اور ہکا بکا ہوتے ہیں اب وہ کریں تو کیا کریں؟سامان سفرکیسے جمع کریں؟پاسپورٹ کیسے تیار کریں؟اوراپنے آپ کو کہاں چھپائیں؟جس طرح منگولوں کی یلغارکے وقت لوگ افراتفری کاشکارہوئے تھے۔نہ یہ صحیح ہے اورنہ یہ کہ آپ نے اسے ہلکا لیا اور یہ سمجھ بیٹھے کہ یہ توایک مضحکہ خیزمفروضہ کے سوا کچھ نہیں ہے اوراپنے آپ سے سوال کریں کہ ایسا کیسے ہوسکتا ہے وغیرہ؟اس کے اندرشکست اورمایوسی کاخدشہ زیادہ ہوتاہے،خیر یہ دونوں طریقے صحیح نہیں ہیں بلکہ ہمیں خطرے کوچاروں طرف سے اس کے ممکنات،اندازوں کواچھی طرح بھانپ لینے کی اشدضرورت ہے۔
اب میں اس طرف آنا چاہتاہوں کہ ہم ان خطرات سے نمٹنے اوراسے شکست سے دوچار کرنے کے لئے حقیقی معنوں میںوسائل کیسے تلاش کریں؟اس لئے ہم کسی وہم وگمان اورسراب کی طرف نہیں جائیں گے اورنہ ہی ایسے تجربے کودوبارہ استعمال کریں جو ایک مرتبہ ماضی میں ناکام ہوچکا ہو،بلکہ ہم اپنے خطے،عوام،امت،پوری بشریت، بلکہ قومی اوربین الاقوامی تاریخ کے ایسے تمام وسائل اورتجربات کودیکھیں گے، اوران میں سے جو بھی ہمارے کام کے ہوں گے ہم اس سے استفادہ کریں گے،جس طرح ہم نے جولائی2006ءکی 33روزہ جنگ یاآج غزہ کی جنگ یا اس سے پہلے والی جنگوں کے دوران فلسطینی لبنانی عوام،عرب بلکہ پورے اسلامی ممالک ہم سب 1948 ءسے اب مختلف موقع پراستعمال کرتے رہے ہیں،اورشروع میں بعض حالات توبعض عوام اورحکومتوں پر سخت تھے، جس کی وجہ سے اسرائیل کا وجود ہمیں ورثے میں ملاہے اوربعدازآں اس کی توسیع ہوتی گئی،میں توصرف آپ کو یاد دلارہاہوں اس میں یہ ہواتھا کہ 20ویں صدی کے اوائل میں انہوں نے چند یہودی خاندانوں، کسانوں،ہنرمندوں،اور تاجروں کو فلسطین میں لاکربسانا شروع کیاتھا پھرآہستہ آہستہ قدم جمانا شروع کیا کہ اصل باشندوں ہی کووہاں سے نکال دیا۔
توآپ خود سوچیں کہ اس وقت عربوں کی تعدادکیاتھی اور یہودی کتنے تھے؟یہودیوں کی تعداداتنی تھی اگرآپ کسی فلسطینی سے کہتے کہ بھائی: یہ یہودی یہاں فلسطین میں حکومت قائم کرناچاہتے ہیں تووہ آپ کوجواب میں کہتا،بھائی صاحب:مہربانی یہاں سے چلے جاﺅ،میرے ساتھ مذاق مت کرو اورجھوٹ مت بولو۔
خیروہ مسلسل یہودیوں کولالا کربسانے لگے، اور شروع شروع میں اتنے خطرات بھی نہیں تھے،اورلوگ بھی ایسے تھے کہ اس سے پہلے انہوں نے کبھی خطرات کودیکھا بھی نہیں تھا،اس لئے وہ کہ سیدھے سادھے تھے اور یہ کہ دوسرے لوگوں نے بھی ان کو قدرے دور رکھا ہوا تھا، وہ یہ کہتے تھے کہ یہ بچارے غریب لوگ ہیں جودوسری جنگ عظیم کے نتیجے میں اپنے وطن سے نکالے گئے ہیں وغیرہ،اگرہمارے علاقوں میں چندخاندان آکربستے ہیںتو کیا فرق پڑتاہے؟ اس لئے فلسطین ماشاءاللہ ایک وسیع علاقہ ہے اورابھی اس کی آبادی بھی اتنی زیادہ نہیں ہے۔
بنیادی طورسے جب یہ خاندان آگئے تومختلف بستیوں میں رہنے لگے جہاں بعدمیں امن وامان اورعسکری نظام وجود میں آیا،شروع میں یہ سب تو اچانک وجودمیں نہیں آیا،لیکن بہت سارے لوگ،عوام اورحکومتیں جن میں کچھ واقعات کودرک کرنے والے تھے،خطرات کوسمجھنے والے اوران سے بچانے والے تھے لیکن اکثریت اس بات سے آگاہ نہیں تھے۔
اورجب ہم 1948ءتک آگئے تو کچھ لوگوں نے کہا: بھائی صاحب: یہ یہودی ہماری زمینوں پرقبضہ کرکے یہاں ایک ریاست قائم کرناچاہتے ہیں اس لئے سرزمین فلسطین ایک وسیع وعریض جگہ ہے۔
لیکن انہوں نے اس بات کی طرف توجہ نہیں دی یہاں تک کہ اسرائیل پھیل جائے گااور القدس اوردیگرعلاقوں پرقبضہ کرے گا۔
1967ءمیں بھی بعض عرب اسرائیل کے بارے یہ کہتے تھے کہ وہ توسیع نہیں چاہتاہے،وہ مغربی کنارے پرقبضہ نہیں چاہتاہے وہ مشرقی قدس پرفوج رکھنانہیں چاہتا ہے،اردن میں داخل ہونا نہیں چاہتاہے اورنہ ہی لبنان میں مداخلت کے خواہاں ہے، لیکن ہم نے1967ءکی جنگ میں دیکھا کہ اسرائیل نے اصلی معنوں میں جنگ کی اس لئے اس کے پاس عرب ممالک اوران کے افواج کے بارے پوری معلومات تھیں،اور خاص طورسے شامی اورمصری افواج کے بارے میں جو اسرائیل کے ساتھ کس جذبے کے ساتھ لڑرہی تھیں،فلسطین مزاحمتوں کے ان بے چارے اسرائیلیوں نے جنگ کی،تو کیااس وقت عرب دنیا میں یہ بات نہیں مشہور تھی کہ یہودی توسیع کے خواہاں ہیں؟
خطرے کاحجم اتنا بڑھ گیاہے کہ اس وقت اسرائیلی فوج کو دنیا میں سب سے زیادہ طاقت ور شمارکیا جاتا ہے،جوخوف ودہشت پھیلانے،قتل وغارت گری کرنے میں مشہورہے،پھرمذاکرات کی میزپرچلی جاتی ہے اوراپنی شرائط لاگوکرتی ہے۔ہم یہاں تک کیسے پہنچے؟۔
اب ہم پہلے موضوع کی طرف آتے ہیں کیونکہ ہم یہ بات کررہے تھے کہ کہ یہودی یہاں پردنیاکے مختلف علاقوں سے آئے تھے،کیا انہوں نے خوف ودہشت پیداکیا ہے یا نہیں؟ اوراگر انہوں نے ایسا کیا ہے تو اس کا دائرہ کتنا ہے؟اس کے اورممکنات کیا ہیں؟اس کی طاقت کے عناصرکیاہیں؟ آخریہ ہے کیا؟
جوبین الاقوامی برادری، بین الاقوامی اداروں، اتحادیوں کے ساتھ عرب ممالک کے تعلقات پر شرط لگاتا ہے اوریہ کہ برطانیہ ،فرانس کے امریکیوں کے خلوص ہے، اورجو بین الاقوامی مداخلت اورعرب لیگ پر شرط لگاتا ہے پھراسٹریٹجک متحدہ عرب کے لئے انتظار کر رہاہے، اور یہ لبنان،فلسطین اوردنیاکے دیگرممالک جہاں صہیونی منصوبے کے متصادم ہیں، اسلامی کانفرنس نتظیم، اتحاداسلامی وعربی ، یہ سب کیاباتیں ہیں؟ہم تو70سالوں سے انتظارکررہے ہیں بلکہ اس سے زیادہ اگر20ویں صدی سے حساب کریں۔
شرائط بھی مذاکرات کی طرح بے سود ختم ہوئے جیساکہ ہم نے بین الاقوامی برادری کے ضمیر،انسانی حقوق کے قانون،جینوامعاہدہ میں دیکھا کہ یہ سب صحیح راستے نہیں تھے،ماضی کا تجربہ ہمیں یہ بتاتاہے،لبنانیوں،فلسطینیوں پران دہائیوں میں جتنے مظالم ڈھائے گئے ہیں اگر اس حوالے سے کوئی نئی بات ہے تومہربانی کریںمجھے بتادیجئے۔
مگرایک ہی بات درست ہے کہ شروع سے نام نہادمسلح جدجہد،نام نہادآزادی کی جنگ یا نام نہاد فوجی آپشن ہوجہاں 1948 ءسے ہی بعض دہشت گردجماعتوں کی چند بیرونی ممالک نے مالی مدد کی اورسرزمین فلسطین پرقبضہ کیا اور فلسطینیوں کو وطن سے نکال کرانہیں اپنے وطن میں ہی یااس سے باہر پناہ گزیں بننے پرمجبورکیا،یہاں بھی ہوناتو یہ چاہئِے تھا کہ امت مسلمہ بیدارہو،فوج تیارکرے اور مزاحمتی گروہ تشکیل دے،اس کے علاوہ تمام مل کراس ہدف کے حصول لئے کام کریں، یہ درست اور صحیح طریقہ تھا، اس کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں تھا۔
اس منصوبے پراگرچہ جزوی طورپرعمل ہوا جس کے لئے 1948ءسے پہلے اوربعد میں فلسطین کے مختلف لوگوں پرمشتمل فلسطینی مزاحمت وجود میں آئی، جس نے 50کی دہائی میں مصرکی طرف سے دشمن کے تین حملوں کا مقابلہ کیا،اس کے بعد1967ءکی عرب اسرائیل جنگ میں اگرچہ مصری اورشامی فوج شکست کھاگئے لیکن جیسے تیسے جنگ ختم ہوگئی۔
لیکن لبنان اورفلسطین کی یہ مزاحمتی تحریکوں کی وجہ سے آج کامیابی حاصل ہوئی ہے یہی طریقہ درست اورصحیح ہے،بجائے ان پرانے طریقوں کے جن پربعض اوقات ہمیں اپنے آپ پرہنسی آتی ہے۔
یہ بھی کہاجاتا ہے کہ مشرق وسطیٰ کے مسئلے کے راہ حل میں ایک رکاوٹ یہودی لابی کے حوالے سے ہمیں ڈرایاجاتا ہے، آئیے ہم کوئی عربی لابی کیوں نہیں بناتے ہیں؟تاکہ ہم اور یہودی لابی مل کرامریکہ کے اوپردباﺅ ڈالیں۔ یہ کون سی بات ہے؟یہ صرف تسلی کے لئے ہے،جوسراسرجھوٹ اوردھوکہ پرمبنی ہے۔
یہ جوتجربہ اس وقت اسرائیل کے حوالے سے دیکھنے میں آیا اگرغزہ،غزہ کی عوام،مزاحمت کارمجاہدین جواپنے عزم وارادے پرپختہ یقین کرتے ہیں اورتمام ترقربانیوں،شہداء،زخمی اورسب کچھ قربان کرنے کے باوجود غاصب اسرائیل کے سامنے جھکنا نہیں چاہتے ہیں،اچھا اوردرست طریقہ ہے،ابھی آپ کسی فلسطینی بھائی یا بہن جوغزہ یا دوسری جگہ میں بستاہے جس نے حالیہ واقعات کو اپنے آنکھوں سے دیکھاہے وہ یہی کہے گا کہ یہی درست اور صحیح راستہ ہے،ہم آپ سے کوئی سو دوسوسال پہلے کی بات نہیں کررہے ہیں۔
لہٰذا صہیونی منصوبے کے مقابلے میں اپنے آپ کوہمیشہ کے لئے ثابت قدمی کے ساتھ قائم ودائم رکھناازبس ضروری ہے۔
اب ہم دوسرے نمونے کی طرف آتے ہیں جس پرتھوڑی گفتگوکرنا چاہتاہوں۔
اے میرے لبنانی بہن بھائیو:جیساکہ آپ گزشتہ تین سالوں سے مختلف نظریات،اسباب ذمہ داریاں،اورخودحق پردوسرے غلطی پروغیرہ جیسی باتیں سنتے آرہے ہیں،اب یہ باتیں ایک طرف رکھ دیں اس لئے کہ اس وقت یہ آپ کے کسی کام کے نہیں،اس لئے اب خطرات آپ کے وجود،مقدسات،گھر،مساجد،چرچ،عورتیں،بچوں تک پہنچ چکے ہیں لہٰذا اب پیچھے پلٹنے کا وقت نہیں ہے،یا کیاہمیں پیچھے پلٹناچاہئِے؟اس لئے کہ آپ کے سامنے اب جو سب سے خطرناک چیز ہے اس کانام داعش ہے۔
اس کے وجودوحیثیت کی بات کرتے ہیں،آئیے ہم دیکھتے ہیں اس کی حقیقت کیاہے؟ آج کل جوتنظیم ایک حکومت بن گئی ہے اب تنظیم نہیں رہی اس نے شام اورعراق کے وسیع رقبہ پرقبضہ کرلیا ہے، جبکہ یہ رقبہ دنیاکے اورعلاقے میں موجود بعض ممالک سے کئی گنا بڑا ہے۔اگرجغرافیائی رقبہ کی بات کی جائے تووہ گیس،تیل اورایندھن کے معدنیات سمیت بڑے دریاﺅں پرقبضہ جمالیتے ہیں اسی طرح ڈیموں پربھی قبضہ کیا ہے۔اس کے پاس بڑی مقدار میں اسلحے کے ذخیرے ہیں،ادھروہ تیل بیچتے ہیں اورادھرلینے والے اورسہولتیں دینے والے تیاربیٹھے ہیں،یہاں پرسوالیہ نشان ہونا چاہئیے، بعض ممالک کوتیل منتقل کرکے فروخت کرنے کے لئے ہزاروں مشکلات کا سامنا ہے۔ جبکہ کس طرح ممکن ہے کہ داعش عالمی اورعلاقائی برادری کے سامنے تیل فروخت کرکے مال حاصل کرے،اس کے علاوہ اس تنظیم کے پاس مسلح جنگجو موجود ہے جس کی اکثریت شامی یاعراقی نہیں ہے بلکہ غیرملکی جنگجوہیں۔انہیں وہاں تک لانے اورسرحدوں میں بھیجنے کے لئے سہولتیں فراہم کی گئیں،یہاں پربھی سوالیہ نشان ہے کہ تنظیم کے پاس یہ سہولیات موجودہیں جبکہ اس کے پاس ایک خاص عقیدہ،نقطہ نگاہ اورادراک ہے۔اسی طرح اس کے مخصوص سلوک اورطریقے ہیں جس کو ہم عراق اورشام میں دیکھ چکے ہیں،وحشیانہ قتل عام کاآغاز کیا،کوئی جنگ سرکرنے کے بعد قتل عام کامرتکب ہونے لگتے ہیں،اس کے بعداسیری میں لیتے ہیں اورقیدوبند کرنے لگتے ہیں ان لوگوں کوقتل عام کیا جن کاجنگ سے کوئی تعلق ہی نہیں۔انہوں نے ان جرائم کاآغاز،ایک سوچ اورایک تنظیم کی اولادیں،بنیادیں ایک ہیں،اوربیعت ایک ہیں،وہ لوگ جو النصرہ فرنٹ سے تعلق رکھتے ہیں اس کے بعد ٹوٹ کردوسرے اتحادیوں میں تقسیم ہورہے ہیں،جوفطری طورپراتحادی ہیں،شام کے مسلح گروہوں جیسے اس وقت داعش اوردیگر مسلح تنظیموں کے خلاف حلب کے شمالی دیہات میں جنگ ہورہی ہے،النصرہ فرنٹ والے بعض علاقوں سے بے تعلق ہوکررہ گئے ہیں،ادلب گاﺅں کے شمالی علاقوں میں جنگ جاری ہے۔
دیرالزور میں گھمسان کی جنگ چھڑگئی ،اب عراق پہنچ گئے،عراق ہویاشام داعش نے اس کی مخالفت کرنے اوراختلاف رکھنے والوں کو تہہ تیغ کرڈلاہے،اسے قتل کیا یاذبح کرڈالا اب آپ ملاحظہ کیجئے یہاں تک کہ مارنے کے طریقے میں بھی دہشت وغصہ کاانتخاب کیاہے۔
چلوآپ اس نتیجے پرپہنچ گئے ہوکہ ان کوقتل کرنا چاہتے توگولی مارو مگرداعش نے انہیں ذبح کرڈالا۔وہ بھی کیمروں کی آنکھوں کے سامنے پھراسے یوٹیوب میں اپ لوڈ کرتے ہیں اسے چینلوں کے ذریعے مشاہدے کے لئے پیش کرتے ہیں،یہ ان سب کی نفسیاتی جنگ کاحصہ ہیں تاکہ سب پرخوف ودہشت اور وحشت طاری ہوجائے،علاقے کے لوگوں پریا حکومتوں یاان کے فوج پر سب پردہشت طاری ہوجائے۔
میری خواہش ہے کہ آپ کوبتادوں،داعش نے قتل عام میں جوخونی کھیل کھیلاہے سب سے زیادہ اہل سنت کے لوگوں کے خلاف جرائم کا ارتکاب کیا ہے،آپ اعدادوشمار کاملاحظہ کرکے دیکھ لیں داعش نے اہل سنت سے وابستہ لوگوں کاقتل عام کیا ہے،اہل سنت کے ان علماءکاقتل کیا جن کا کسی تنظیم سے تعلق نہ تھا یا ان تنظیموں کے خلاف تھے یاان کے خلاف برسرپیکار تھے جن کوہم اہل سنت والے جانتے ہیں داعش انہیں کافرمانتی ہے،کیونکہ اس کا اپنا خاص عقیدہ اورسوچ ہے، اس کا اپنا فقہ ہے ،یہ،یہ،یہ کافرہیں ان کے حساب میں اس طرح اشعری مسلمان بھی،عقیدہ، سوچ اورعلم کلام کی بنیاد پران کے اکثراہل سنت اشعری ہیں،اشعریوں سے ہٹ کربھی جن کے پاس یہ سوچ ہوکہ ان کے ساتھ سیاسی اختلاف رکھتے ہیں،یا ان کی بیعت کے لئے تیارنہیں، انہیں ذبح کرڈالاہے۔
آج کل داعش نے کردوں کے خلاف بھی جوجنگ چھیڑ رکھی ہے، یہ کرد کون ہیں؟ کیا وہ عیسائی یاشیعہ ہیں؟ سنی ہیں؟ عراق کے حالیہ جنگ میں 15لاکھ سے زائدبے گھرہونے والے افرادسنی ہیں،یہ لوگ نہ شیعہ ہیں،نہ ازدی اورنہ عیسائی ہیں۔
ٹھیک ہے یہ عراق ہے مگراس نے کسی کو نہیں بخشا۔اگرمذہب اورعقیدے کی بات کریں تو وہاں مسلمان،عیسائی اورازدی ہیں،اگرفرقہ اورمسلک کی بات کریں توشیعہ اورسنی ہیں،کسی کوبھی نہیں بخشا،اگرقومیت اورنسلی بنیاد پردیکھیں تویہاں عرب،ترکمان اورکردہیں پھربھی کسی کونہیں بخشا،ادھریہ جنگ شام میں ہورہی ہے نہ عرب کوبخشانہ کرد کوکسی کوبھی نہیں بخشا۔
یہ داعش ہے،ادھرمقدس مقامات،مزارات،تبرک جگہیں،مساجد،چرچ ہیں یہ ایک مخصوص زندگی کاطریقہ اسلحے کے زورپرلاگو کرنے جارہی ہے،یہ مخصوص طرززندگی کسی بھی لحاظ سے اسلام سے تعلق نہیں رکھتی ہے،نہ ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کوئی تعلق ہے،قرآن کااس سے واسطہ ہی نہیں،یہ کوئی اورچیزہے،آپ جاکرعلماءسے معلوم کیجئے اوردیگرتمام مذاہب سے بھی معلوم کیجئے۔
کیا یہ تناظرموجود ہیں کہ نہیں؟یہ مزاحیہ کہ وہ مقاصد بیان کررہی ہے، ایک نقشہ سامنے رکھا ہے جسے حقیقت کاروپ دینے کے لئے دھمکاتی ہے،گرجتی ہے،پھولتی جاتی ہے،اس سے خطرناک بات یہ ہے کہ اس کے پاس ہموارزمین موجودہے،کیوں ہمیں چھپنا پڑرہاہے؟۔ کیونکہ علاقہ میں موجودعرب ملکوں میں اس کے پاس زمینی اسباب موجودہیں یہ ہموارزمین اہل سنت کی حیثیت سے نہیں ہے بلکہ اس طرزتفکر کی پیروی ہے جس کے تحت اپنے علاوہ سب کو کافرسمجھتے ہیں۔اوراپنے سوا دوسروں کاخون حلال سمجھتے ہیں اوردوسروں کی عزتوں کواپنی لونڈی سمجھتے ہیں۔اس کا دعوی ہے کہ تمہیں ذبح کرنے کے لئے آئے ہیں،یہ بات کسی بھی آسمانی مذہب اورشریعت میں نہیں ہے،دین خدا میں ایسی بات نہیں کہ ہم تمہیں ذبح کرنے کے لئے آئے ہیں،خاص کریہ جعلی اورسنگین غلط نسبت رسول خدا سے دیتے ہیں۔ یہ اس رسول اللہ کی بات کرتے ہیں جنہوں نے ان کے خلاف جنگ کرنے والے اورانہیں شہربدرکرنے والے ابوسفیان اوردیگرمشرکین کو جنہوں نے ان کے اصحاب کوقتل کیا،حضرت حمزہ کوقتل کرکے ان کے کلیجے کوچباڈالا،ایمان لانے والوں کے گھروں پرقبضہ جمایا،ان کواس حدتک تکلیفیں پہنچائیں کہ انہوں نے فرمایا کسی پیغمبر پراتنی اذیت اورتکلیفیں نہیں پہنچیں جتنی مجھ پرپہنچ گئیں۔۔ان کے خلاف جنگ لڑتے رہے یہاں تک کہ ان کے زیرنگین آئے پھربھی کچھ لوگوں نے ہی اسلام قبول کیا اورباقی سب مشرک رہے، کچھ بھاگ کھڑے ہوئے،چھپ گئے پھربھی پیغمبر خدا نے فرمایا: جاﺅتم آزادہوتمام دشمنیوں کے باوجود نہ انہیں ذبح کیا نہ پھانسی پرچڑھایا اورنہ ہی انہیں پیغام بھیجا کہ تمہیں ذبح کرنے آئے ہیں،کہاں لکھا ہے کہ انہوں نے ایسے الفاظ زبان مبارک سے جاری کئے ہوں کہ ہم تمہیں ذبح کرنے آئے ہیں؟
یہ داعش ہی کامخصوص نعرہ ہے لہٰذا یہ لہرحقیقی صورت رکھتی ہے اگرکوئی کہے کہ یہ "موجود” وجودنہیں رکھتی وہ کسی اورعالم میں ہے،اسے کوئی ذمہ داری اپنے عہدہ نہیں لیناچاہئیے،اپنے گھرانہ کی ذمہ داری بھی اسے کسی تحرک کی ذمہ داری،گروہ یاپارٹَی،کوئی سماج ومعاشرہ یاشہر،گھرانہ اولاد اور زوجہ کی ذمہ داری نہیں لینی چاہئیے،ایسے لوگ زمہ داری اٹھانے کی اہلیت نہیں رکھتے ہیں،حقیقت میں یہ منظرواضح ہے،داعش ان لوگوں سے دور رہتی ہے جوان کی پشت پناہی کرتے ہیں،یہ شامی،عراقی اورایرانی ایجنسیوں کی بات ہے،بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ حزب اللہ نے داعش کولایا اوراسے کنٹرول کررہی ہے، یہ مضحکہ خیز ہے اس پرکوئی تبصرہ نہیں ہوسکتا،ہاں: بعض علاقائی ممالک ہیں جوداعش کی دیکھ بھال کرتے ہیں اورکررہے ہیں،اوراسے اس مقام پرپہنچایا ہے،کیاامریکیوں کاداعش کے ساتھ تعلق ہے ؟ہلری کلنٹن کے بیان کے سائے میں،میں اس کی ذمہ داری نہیں اٹھارہا، میں نہیں کہتا یہ بات درست ہے یانہیں؟مگرجوبات میں جانتا ہوں وہ یہ ہے امریکہ نے اس بات کونظرانداز کیا،سہولت فراہم کی،پھیلنے دیااوران کے سامنے دروازے کھول دئےے تاکہ ان حالات اورواقعات سے فائدہ اٹھائیں،جس کے بارے میں پہلے بتاچکاہوں۔
فطری بات ہے کہ یہ انہیں کاپیداکردہ ہے،اورظاہرہے امریکی اثرورسوخ شامل ہے یہ لوگ (داعش)غفلت سے یاجان بوجھ کرجدیدخطوط پرامریکی اوراسرائیلی مقاصدواہداف کی تکمیل کرتے ہیں۔
میں تمام لبنانیوں،فلسطینیوں اورسب کودعوت دیتاہوں اب ہم اصل نقطے پرپہنچ چکے ہیں،یہ سوال کرناچاہتاہوں تاکہ اپنی تقریر کے آخری حصے پرپہنچوں،کوئی بھی جوچاہے شام سے تعلق ہویاعراق یاخلیجی ممالک سے ایک خوداوراپنے ضمیر کے ساتھ بیٹھے اورسوچے،اللہ تعالی نے فرمایا ہے: اللہ کے لئے اٹھ کھڑے ہوںایک اوردوکرکے” اب تعصب کے خول سے نکل جائیں چاہے پارٹی کی بنیاد پرہویا فرقے،مذہب علاقائی اور دیگرتعصبات کی بنیادپرہو،آئیے خلوص سے ذاتی،سیاسی اورپارٹی وابستگیوں کوپرے چھوڑیں،اب آپس میں سوچیں کیا یہ خطرہ سب کے لئے ہے یاصرف حزب اللہ کے لئے ہے؟ کیا دیرالزور میں حزب اللہ ہے؟ کیا الرقہ میں حزب اللہ ہے؟ کیاحزب اللہ موصل میں برسرپیکار ہونے کی وجہ سے داعش نے وہاں حملہ کرکے اس پرقبضہ کیا؟ یہ صرف شیعوں کے لئے خطرہ ہے؟یاصرف عیسائیوں کے لئے ہے؟یاصرف ابھی ازدیوں کے لئے ہے؟ نہیں توکیاعلوی یااسماعیلی یادوسرے فرقوں کے لئے ہے؟ دروازے ابھی دورہیں جی ہاں: یہ سب کے لئے خطرہ ہے مگرپہلے اورسب سے زیادہ اہل سنت ہی کے لئے ہے،اسی لئے نہایت خلوص کے ساتھ ہماری آرزوہے کہ کوئی اسے علاقے میں فرقہ وارانہ جنگ کے عنوان سے پیش کرے اورنہ ہی اسلام اورمسیحیت کے حوالے سے ،یہ داعش کی جنگ ہے ان سب کو دورکرنا،سب کوخارج کرنا،سب کوکافرکہنا،سب کوقتل کرنا جواسے نہیں مانتے۔
داعش ان باتوں کونہیں مانتی جسے اسلام نے لایا،جونبی اکرم(ص) نے فرمایا،جو1400سال سے خلفائے راشدین نے لایا، علاقائی نقشے کونہیں مانتی،علاقائی،مذہبی اقلیتوں کو نہیں مانتی،یہ سب ان کی نگاہوں میں ہیچ ہیں،یہ وجودجس کی عمر ایک سال ہے1400سال سے زیادہ عمررکھنے والے فرقوں،اقلیتوں،مساجد،مزارات،متبرک مقامات،چرچ کونہیں مانتے اورانہیں مسمارکرتے ہیں،یہ سب بلکہ اکثرمقامات عام اصطلاح کے مطابق سنی سلطنتوں کے دوران تعمیر کی گئی تھیں،مگران کوان کی تاریخ سے کوئی تعلق نہیں ہے نہ اس سوچ سے اورنہ اس ثقافت سے،یہ لوگ چاہتے ہیں سب کو صفحہ ہستی سے مٹادیں لہٰذا یہ سب کے لئے خطرہ ہے۔
بہرحال پہلے ہمیں اس خطرے کی اہمیت کے بارے میں علم حاصل کرناچاہئیے ہیں، دوسرا ایشو یہ ہے کہ اس سے مقابلہ کرنے کے لئے کیاکرنا چاہئیے؟ اب جبکہ ہم سب خطرے کے گھیرے کے اندر ہیں ہمیں یہ سوچنا چاہیئے کہ کیا کرناچاہئیے؟ مثال کے طورپرعالمی برادری کے پاس جاکرپناہ لیں اوریہ کہیں؟ کہ ہم کچھ بھی نہیں کرسکتے،چلو امریکیوں،فرانس والوں اورانگریزوں سے بات کریں اس وقت روس یوکرائن میں پھنساہواہے چلیں دیکھتے ہیں ہم کیا کرسکتے ہیں؟ عالمی برادری کے علاوہ کوئی اورہے جوآکر مداخلت کرے۔
مگرکونسی عالمی برادری مداخلت کرنے آئے گی؟ کہاں مداخلت کرے گی؟ کس کے مفاد کی خاطرمداخلت کرے گی؟ یہی نتیجہ ہے عراق میںآج جوکچھ ہورہا ہے ، میںامریکی مداخلت کا مطالبہ نہیں کرتا مگریہاں سوال یہ اٹھ رہاہے،جب داعش موصل،صوبہ نینوی اور صوبہ صلاح الدین کے زیادترعلاقوں پرقبضہ کرکے دیالیہ میں گھس بیٹھ کرکے وہاں لوگوں کا وحشیانہ قتل عام کامرتکب ہوئی اورلوگوں کوذبح کرنے لگے صحراﺅں میں لوگوں کا پیچھا کیا جبکہ ذبح کرنے والے تمام واقعات کے مناظر صحیح ہیں اورسب ٹی وی میں دیکھ چکے ہیں ایسے حالات میں عالمی برادری نے کیوں مداخلت نہیں کی؟
اوباما اورامریکی اداروں کی انسانیت کیوں جوش میں نہیں آئی؟ عیسائیوں کے مسئلے میں بھی لاکھوں افراد کے دربدری کے باوجود انہیں کچھ نہیں ہوا۔
وہ عراق یاموصل،شام یالبنان کے عیسائیوں کے حال پوچھتے بھی ہیں۔مجھے لبنان کے عیسائیوں سے کچھ کہنے دیجئیے: اگرآپ میں سے کوئی یہ سوچے کہ امریکہ یامغربی ممالک کو آپ کی کوئی پرواہ ہے تووہ غلطی پر ہے،ہرخطرے کے ساتھ یہ فقرہ ضرور کہاجائے گا جیساکہ فرانس نے عراقی عیسائیوں سے کہا پناہ دینے کے لئے ہم آپ کااستقبال کرتے ہیں، شہریت بھی دیں گے یہ وہی منصوبہ ہے جس کے بارے میں آپ کے بزرگوں نے سابق فرانسیسی صدر سے سنا ہی ہوگا، کیا کوئی مغربی شخص ہے جوعلاقے کے عیسائیوں کے بارے میں پوچھتا ہو؟آپ سب امریکہ، فرانس،برطانیہ،عالمی برادری،اقوام متحدہ اورسلامتی کونسل کے انتظارمیں رہتے ہوان تمام صورت حال کے باوجودرونما ہوچکے یاہونے والوں،کسی نے نہیں پوچھا،نہ سنیوں سے پوچھا،نہ شیعوں سے،نہ عیسائیوں سے،نہ ازدیوں،نہ کردیوں سے، ان کردیوں کاحال نہیں پوچھا جوموصل میں قتل عام ہوئے حتیٰ کہ کرکوک کے اطراف میں قتل ہوئے اورنہ زماراورسنجار کے مقتولین کاحال پوچھا نہ انہیں ترکمان کی پرواہ اورنہ عرب کاپوچھا۔
ہاں: اگرانہیں پرواہ ہے تواس وقت ہے جب جنگجو اربیل کے آس پاس پہنچے،کیونکہ کردستان کی سیاسی،اقتصادی اورامن وامان کے لحاظ سے مغرب اورامریکی اداروں کے لئے اہمیت کاحامل ہے چنانچہ ایک دم مداخلت کی،،،
کیونکہ اسے داعش اس کی اجازت نہیں ہے،یہاں تک آپ کا سرحدہے تمہیں اجازت ہے تمہارے سرحدکے اندر سنی ذبح کرو،شیعہ ذبح کرو،عیسائیوں کوذبح کرو،ان کے کلیساﺅں کوڈھادو،ان کی عورتوں کو کنیزی میں لے لو،ازدیوں کے اجتماعی قتل کی اجازت ہے۔
جی ہاں: کردی ہویاعربی،ترکمان ہویا ترکی کوئی فرق نہیں مگراربیل کے آس پاس نہیں بٹھکنا،یہ خطہ کردستان کا ہے،نقشے میں اس کاخاص مقام ہے،اس کے بارے میں نظریہ اورنقطہ نگاہ ایک ہے،کیاآپ چاہتے ہیں؟ہم عراقی یاشامی یالبنانی یااردنی یافلسطینی یاعلاقے کے لوگ اورعوام امریکہ اورعالمی برادری پربھروسہ کریں یاان کی ضمانت حاصل کریں؟
تمہیں کس کے انتظار میں بیٹھنے کاارادہ ہے؟ عرب لیگ تمہیں بچائے گی،عربی اتحاد اوراجماع کاانتظار کروگے یا کیاکوئی اقوام متحدہ عربی اسٹریجٹک ہے؟ یااس سے بڑھ کرکوئی موجودہے کیاانتظارکروگے؟ میں یہاں صاف صاف کہناچاہتاہوں، کسی بھی ملک میں اگرکوئی احساس کرے کہ اس کے وجود کوتباہی،بربادی کاسامناہے کیا وہ قومی اتفاق کے انتظار میں بیٹھارہے گا، کیا تاریخ میں اس کی کوئی مثال ہے؟ ہرگز نہیں!!!
پھرسوال یہ ہے، جب خطرے کے بارے میں ہم سب متفق ہیں، سوال یہ پیش آتا ہے کہ ہم اس سے کس طرح نمٹ سکتے ہیں۔کہاں پناہ لیں اورامکانات کیا ہیں؟ذریعے کیا ہیں؟طریقے کونسے ہیں؟ عراقیوں کے سامنے،شامیوں کے سامنے،فلسطینیوں کے سامنے،علاقے کے عوام کے سامنے نہایت عظیم اوربہادری بھرکم ذمہ داریاں ہیں۔
میں لبنانی عوام سے مخاطب ہوں، یہی منطق تمام دوسری ممالک اور قوموں کے لئے بھی طابقت ہوگی کیونکہ الحمدللہ وہاں بھی قیادتیں ہیں، علماءاورمراجع عظام ہیں ،پارٹیاں،مختلف طاقتیں،بڑی اورممتازتحریکیں،ذمہ داری اٹھانے والے اہل افراد۔۔۔۔ ہیں۔
مجھے اجازت دیجئے لبنانی راہ حل کے بارے میں بتادوں،ہم سب لبنانی ہیں ٹھیک ہے جب ہم اس بات پرمتفق ہیں کہ یہ خطرہ موجود ہے اوربہت مشکل خطرہ ہے،اب خطرہ ایک سال،دوسال،تین سال ،پانچ سال میں ٹلنے والا نہیں ہے،یہ عراق سے پہلے اورموصل سے پہلے کاہے،پورے علاقے کی ایک حالت تھی جویکایک دوسری حالت میں بدل گئی،یہ تبدیلی راتوں رات آئی،ہرقسم کی تبدیلی ایک رات کے فاصلے پرممکن ہے۔علاقے کے ہرملک میں کیونکہ داعش آج عراق اورشام کے لئے حتمی اوریقینی خطرہ ہے اورامکانی خطرہ ہے دیگرملکوں کے لئے۔اردن،سعودی عرب،خلیجی ممالک حتی ترک ممالک کوبھی چاہئِیے اپنے موقف پرتجدید نظرکریں۔یوں تمام ممالک کے لئے ایک خطرہ موجودہے۔اب ہم لبنانیوں کے لئے ممکنہ اقدامات کیا ہیں؟وہ چیزکیا ہے جس کی طرف ہم نے رخ کرناہے؟
یہاں تک کہ اب نہایت حساس سوالات ہیں جوپیش کی جارہی ہیں۔ میں کہتا ہوں ہم حزب اللہ کے اندر رہ کر بحث وتحقیق کریں،جبکہ ہم پرفرض ہے کہ سارے لبنانیوں کے ساتھ بحث وجستجو کریں اورانہیں بھی چاہئے آپس میں بحث وجستجو کریں۔
بس یہی بات ہے اس موضوع پرقومی بحث کے لئے سیمینارزکی دعوت نہیں دیتاہوں کیونکہ ہم اس موضوع پرکسی آخری نقطہ پرنہیں پہنچیں گے۔اس کے لئے اسی بات کی ضرورت ہے جسے میں نے بتادیا ہے۔ اللہ کے لئے ایک سوکرکے اٹھیں۔
ہرپارٹی اپنی پارٹی میں رہ کر،ہرجماعت اپنی جماعت کے ساتھ جب بیٹھیں گے تودوتین نقاط پرپہنچیں گے ضرور،مفکر کی طرح،اعلی لوگوں کی طرح،سیاستدانوں کی طرح،عوام کی طرح سوچیں گے،بات کریں گے، میرے بھائی کیا کرنا چاہئیے آگے؟
یہاں ایک حساس سوال ہے جس کے بارے میں بات ہوتی رہتی ہے،یہ کوئی معمولی عنوان نہیں نہ ہی ہمارے آپس کے اندرداخلی،سیاسی حساب کتاب نمٹنے کاموضوع ہے جس میں کہتے ہیں کہ مسئلے کاحل حزب اللہ کاسوریا سے انخلاءہے۔
حزب اللہ کے لئے القلمون اورالقصیرمیں موجودگی بنیادی طورپرممکن ہے،یعنی سرحدی علاقوں میں جبکہ القلمون اورالقصیرسے انخلاءکی بات بھی کی جاتی ہے۔
میں لبنانیوں سے سوال کرتاہوں خاص کراہل بقاع سے:سارے لبنانی قوم عیسائی اورمسلمان ہیں،سوال یہ ہے کیاحزب اللہ کے شام سے انخلاءسے لبنان پرموجودخطرات ختم ہوں گے؟یعنی اس کے بعد داعش لبنان میں گھس بیٹھ نہیں کرے گی؟ یااس کے پاس لبنان کے لئے کوئی مقاصدنہیں ہیں،کیاممکن ہے لبنان کے اعلی عہدیدار یاکچھ لوگ موصل جاکرابوبکرالبغدادی کے ساتھ بیٹھ کریہ بتائیں: لیجئے یہ وہ نقشہ ہے جسے تم نے ٹی وی میں دکھایاہے،یہ10452مربع کلومیٹرعلاقہ اس میں بڑھادیاگیاہے،لہٰذا مہربانی فرماکراسے اپنے نقشے سے نکال دیجئے کیونکہ ہم نے حزب اللہ سے بات کی ہے ان وہ جلدشام سے انخلاءممکن بنائے گی،کیایہ حقیقت ہے یاسادگی سے کیا القلمون اورالقصیر سے انخلاءلبنان کوبچاپائے گی؟وہاں پرہماری موجودگی سے ہٹ یابلاوجہ ہم سے کہاگیا کنارے پرجاکربیٹھیں،اب اس بات کاکیافائدہ ہے؟
خداکی قسم کسی وجہ سے ہویا بلاوجہ اس بحث سے ہم کسی بھی جگہ نہیں پہنچیں گے،کیونکہ ہرایک کے پاس ایک منطق ہے اورہرایک کے پاس ایک حوالہ ہے،آئیے آخرسے بات کریں،موجودہ حالات میں پوراعلاقہ خطرے میں گھرا ہواہے،اب سوچ اورفکرمزاج کامتحمل نہیں جیساکہ اول جولائی 2006 ءمیں رونماہواتھا،عمارتیں بمباری سے تباہ ہورہی تھیں اورزیرزمین بنیادیں میزائلوں کے زدمیں تھیں اورلوگ ذبح ہورہے تھے اورکچھ لوگ زبان کشائی کررہے تھے کون حق پر ہے؟ آپ لوگوں نے ان کواسیرکیا ہے۔
میرے بھائیو:ابھی ملک مشکل میں ہے یہ بعد کی بات ہے کہ کون حق پرہے اس وقت قومی ذمہ داری یہ بتارہی ہے: اٹھو جنگ کامقابلہ کرو،قومی ذمہ داری ہمیں یہ بتارہی ہے اٹھیں ملک کا دفاع کریں اپنے لبنان کاملک کا،حکومت کا،قوم کا،سماج کا اورعلاقوں کا،اوراس میں سنجیدگی کے ساتھ آپ سے سنجیدہ سوال کرتاہوں۔آئیے اس موضوع کے بارے میں مل کربات کریں کیاشام میں ہمارے انخلاءسے لبنان بچے گا یاہماری شام میں موجودگی سے لبنان بچ پائے گا؟
مثلا آج کل کہا جارہاہے کہ اقوام متحدہ کی قرار داد نمبر 1701کے حکم کی توسیع کانفاذکیاجانا چاہئے کہ لبنان کی یہ سرحدیں شام کے یابعض کے مطابق بقاع تک توسیع دینا چاہئے۔ یہاں پربھی ایک سوال اٹھتاہے کہ یہ تمام جنوب لبنان تواسرائیل کے قبضے میں تھے جوجولائی کی جنگ کے بعدواپس لئے گئے ورنہ اسرائیل تووہاں مزے کر رہاتھا اورآج کوئی وہاں کاروائی نہیں کرسکتاتھا،اورکوئی بھی نہیں کہہ سکتا تھا یہ جنوبی علاقہ محفوظ ہے یہ سب کچھ کیا1701قراردادکی بدولت ہے؟
یہ سب کچھ قومی طاقت اور یونیفل کی بدولت ہیں،کیاصورت واقعاایسا ہے؟ کیاآپ لوگ واقعاایسا ہی کہتے ہیں؟ آپ آخرکس پرہنس رہے ہو؟ اچھا جائیے
اورجنوب والوں سے پوچھئیے ان باتوں کی کیا حقیقت ہے؟
کیاآج اسرائیل قومی فیصلوں کااحترام کرتا ہے؟کیالبنان کو1701کامعاہدہ بچائے گا؟
میرے بھائیو: آخرآپ لوگ کس پر ہنس رہے ہو؟ کیا60 یا70سال گزرنے کے بعد کیا1701لبنان کوبچائے گا؟
یونیفل بیچارے ہی لبنان کوبچانے والے ہیں،اوریہ لوگ ان کی حفاظت کرناچاہتے ہیں جوانہیں بچاتے ہیں،فرض کریں اگرکوئی زرخیزثقافت،حکومت،فوج نہیں ہوتی تویہ لوگ اپنے آپ کوکبھی نہیں بچاسکتے، لبنان اورجنوب لبنان کوعوامی فورس کی مزاحمت نے بچایا ہے اوربچائے گا،اور وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ مزاحمت کاروں کے میزائل کی طاقت، مزاحمت کاامکانات،مزاحمت کے افراد لبنانی فوج کی حب الوطنی کواچھی طرح جانتے ہیں۔ ورنہ فوج کے پاس کیا عسکری امکانیات ہیں؟یہی محافظ اس عنصر کو روکنے کے لئے ہے نہ کہ بین الاقوامی چھتری نہ 1701 اور نہ ہی بین الاقوامی افواج اور یونیفل۔
یہ لبنانیوں کے لئے کتنی مضحکہ خیز بات ہے کہتے ہیں کہ میںہرسال،بقاع بعلبک زحلہ اورجبل عامل کوبچانے والا ہوں۔ کیا لبنانی فوج ان تمام سرحدوں کی حفاظت کرپائے گی؟ میں ان سے کہتاہوں کہ یہاں بین الاقوامی منصوبہ ہے جس کی امریکہ سرپرستی کررہا ہے تاکہ تمام چیزوں کوتباہ وبرباد کرے،جائیے جاکراپنے حلیفوں سے پوچھئے کہ ہم کیوں وقت بربادکریں،،،
ان تمام کے باوجود میں سنجیدگی سے کہتاہوں آئیے بات کرتے ہیں۔
اچھا گزشتہ ادوارکی حکومتوں میں یہاں تک ہم بھی ان کے ساتھ شامل تھے اوراب ہم خودفاصلے پرہیں،کیایہ دوری لبنان کوبچائے گی؟اگرخداناخواستہ ہم یہ فرض کرلیں کہ داعش آکرتمام شام پرقبضہ کربیٹھے اورآپ کی سرحدتک پہنچ جائے آپ راشیا،حاصبیا،شبعا،بعلبک بقاع اورشمال کی سرحدوں تک پہنچ جائے، توکیااس میں کوئی خطرہ نہیں؟کوئی مسئلہ نہیں؟توپھرکوئی ملک کو بچانے کی ذمہ داری اٹھاسکتا ہے؟ کیایہ دوریاں ملک کوبچائیںگی؟ کیا شام میں جوکچھ ہورہاہے ان سے ہمارا کوئی تعلق نہیں؟داعش آجائے،القاعدہ آجائے توکیاان باتوں سے ہماراکوئی واسطہ نہیں؟اب یہاں پر مزاحمت کی منطق اور شام کی وفاداری پربات نہیں کروں گا۔
میرے بھائی میں ایک لبنان کے باشندے کی حیثیت سے بات کرتاہوں،کہ کیا یہ خوددوری کی سیاست ٹھیک ہے؟ جس میں ہم ایک ایسی جگہ پہنچ جائیں جہاں لبنانی فوج کے خلاف سازش کی جائے، انہیں اغواکیاجائے،ان کے افسران کو ذبح کیاجائے اورشام سے بات کرنے پرپابندی لگائی جائے اس لئے کہ خوددوری کی سیاست چل رہی ہے، کیا اس میں کوئی منطق ہے؟
ہرحوالے سے یہ سوالات اٹھائے جاتے ہیں، آئیے ہم بات کرتے ہیں،حزب اللہ شام میں موجود ہے،اس کاوہاں ہونا یا وہاں سے نکلنا ملک کوبچائے گا،آئیے ہم بات کرتے ہیں لبنان خطرے میں ہے جس میں اصل مسئلہ خودہمارے درمیان ہے،لبنانیوں کے اندرہے۔
جب آپ کہتے ہیں کہ کوئی ملک یا معاشرے کوخطرے کاسامنا کرناپڑے توظاہری بات ہے چاہے وہ سیاسی قوتیں ہوں یا معاشرے کی اکائیاں ہوں،سب سے پہلے انہیں کوئی ایسی تنظیم بنانے کی ضرورت پڑتی ہے جواس خطرے کے ساتھ مقابلہ کریں اورجوکوئی ایسا نہیں کرتا وہ عقل،دین،اخلاق اورانسانیت کے خلاف بات کرتاہے،اس کامطلب یہ ہے کہ وہ جان بوجھ کراپنے عوام کوخطرے میں دھکیلنے کے مترادف ہوگا،لہٰذا ضروری امر ہے۔
لہٰذا سب سے پہلے میں لبنانیوں کے لئے یہ پیشکش کرتاہوں کہ تمام لبنانیوں کویہ دعوت دیتاہوں کہ وہ اچھی طرح سمجھیں کہ ان کاملک،ان کا وجود،ان کا معاشرہ ایک خطرے کے سامنے ہیں جونہایت ہی خطرناک ہے،تواس خطرے کے مقابلے میں سب سے پہلے میں ہمیں انتہائی خلوص کے ساتھ اپنے قبائلی،مذہبی،ذاتی،حزبی اختلافات کوایک طرف کرنا چاہئیے،اور سنجیدگی کے ساتھ قربانی کے اپنے آپ کوتیارکرنے کی ضرورت ہے،ہاں اس میں کسی کااختلاف نظرہونابری بات نہیں جب تک اسکی سوچ مثبت ہو،عقل،دین اورانسانیت کایہی تقاضاہے کہ اس پر عمل کیاجائے۔
اب ہم اپنی طاقتوں کو جمع کرکے خطرے کے ساتھ مقابلہ کرنے کے حوالے سے بحث کریں گے۔اس میں سب سے پہلے لبنانی فوج اوردیگرسکیورٹی اداروں
کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ملک وعوام اورسرحدکی حفاظت کریں،اس لئے کہ یہ ذمہ داری حزب اللہ اوردیگرتنظیموں کی نہیں ہے۔
اس کی اہلیت بہرحال حکومت کو پیداکرنی چاہئیے۔ پھراگرکوئی آکربولے: آپ لوگ روکیں گے۔ ہم کبھی بھی نہیں روکیں گے،کیاہم نے کسی کو فوج کے لئے اسلحہ،میزائل وغیرہ دینے سے روکاہے؟
ہم تواس میں خوش آمدید کہتے ہیں،لیکن ضروری بات یہ ہے کہ اسلحہ فوج کومل توجائے کہیں ایسانہ ہو کہ کہانی وہی پرہی ختم ہوجائے کہ فوج B7یاBKCجیسے نارمل اسلحوں کامقابلہ بھی نہ کرسکے، مطلب یہ ہے کہ اسلحہ حقیقت میں لبنانی فوج تک پہنچ جائے اس لئے کہ فوج اوردیگرسکیورٹی اداروں کی ذمہ داری ہے ملک وقوم کی حفاظت کریں۔
اس مرحلے میں سیاست دانوں کوبھی فوج کی حمایت میں چندباتیں کرنی چاہئیے،اس لئے اس پرصرف میڈیاسے وابستہ افرادہی بول رہے ہوتے ہیں،اب مجھے نہیں معلوم کہ کیاہوا ہے؟لیکن میں جوسوچ رہاتھا وہی بولنا چاہ رہاتھا،بس سب سے پہلے فوج کی عوام کی طرف سے حمایت ضروری ہے اس لئے حقیقی حمایت ہی آپ کی فوج کے وقارکوبلندکرسکتی ہے،لیکن اس میں شرط اول یہ ہے کہ فوج کے اندر معنوی طورسے جذبہ جنگ ہو،یہ حکومت کی ذمہ داری ہے پھرعوام حکومت کے پیچھے کھڑی ہو۔
آج سب سے پہلی اوربڑی حمایت یہ ہے کہ حکومت لبنانی فوج کے ساتھ کھڑی ہوجائے تاکہ جوسپاہی اورسکیورٹی کے دیگرافرادجوکوگرفتارکئے گئے ہیں ان کی رہائی عمل میں لائی جائے۔
اس حوالے سے ہم ہمیشہ بولتے رہتے ہیں مگرکوئی سننے اورسمجھنے کے لئے تیارنہیں ہے،کتنے عرصے سے یہ اغواشدہ اورگرفتارشدہ افرادقیدوبندکی صعوبتیں برداشت کررہے ہیں،یہ واقعی صرف لبنانی فوج کے لئے ننگ وعارنہیں ہے ،صرف حکومت کے لئے نہیں، بلکہ پوری لبنانی قوم کے لئے باعث حقارت ہے،ہم نے ہمیشہ جب بھی کوئی مزاحمت کاراسرائیلی جیلوں میں جاتاتھا ہم نے اس کی پرزورمذمت کی اگرچہ اس کاتعلق حزب اللہ سے نہ بھی ہو،ہماری نظرمیں بس یہ کافی ہوتا ہے کہ وہ مزاحمت کارہو۔
جہاں تک لبنانی فوج اوردیگرسکیورٹی اداروں کے آفیسروں اورمسلح جماعتوں کے درمیان تعلق کی بات ہے وہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اسے فوج اوردیگراداروں کے وقارکومدنظررکھتے ہوئے کوئی راہ حل ڈھونڈیں۔یہ کہ ان الزامات کوچھوڑدیناچاہئیے کہ کوئی یہ اعتراض کربیٹھے کہ یہ صلیبی فوج ہے صفوی فوج توحزب اللہ کے ہاتھ میں ہے،میرے بھائی ایساکبھی بھی نہیں ہوتاہے کہ فوج حزب اللہ کے ہاتھ میں ہو،فوج اورحزب اللہ کے درمیان کوئی مشکلات نہیں ہیں،اورہمیشہ یہ فوج کی خواہش ہوتی ہے کہ ملک میں کوئی سیاسی مسئلہ پیدانہ ہو،تو یہ سیاسی قوتیں مزاحمت کے اندرکیسے دیوار بن سکتی ہیں،آپ کے خیال میں کیا فوج اورحزب اللہ کے درمیان کوئی جھگڑاہے؟کیاایساہونا ملک کے مفاد میں ہے؟ ہرگزنہیں۔
یہ بات تمام سیاستدان اچھی طرح جانتے ہیں کہ فوج حزب اللہ کے ہاتھ نہیں ہے،ان الزامات کی طرف توجہ نہیں دیناچاہئیے،لہذا ہمیں اپنے فوج اورسکیورٹی اداروں کی ہرمیدان میں مدد کرنی چاہئیے، تاکہ ہماری فوج روحی ومعنوی اعتبارسے مضبوط ہوں،
ایک بات اورکہ حالیہ حکومت کی حفاظت ہرصورت میں ضروری ہے اگرچہ اختلافات اپنی جگہ،اس لئے کہ یہی ادارہ دراصل کچھ کرسکتا ہے،ہم سب کودیکھ رہے ہیں ابھی تک ہمارے لئے صدرکاتعین نہیں ہواہے،کوئی بھی حکومت اپنے پارلیمنٹ کے ارکان سے وجودمیں آتی ہے جس کی آئیندہ انتخابات کے ذریعے دوسری حکومت کی تشکیل تک حفاظت ضروری ہے۔
ایک اہم بات قبائلی،مذہبی،حزبی تمام اختلافات کوروکنے کی ضرورت ہے آخران امورکاکیا فائدہ ہوگا؟ مثال کے طورپراگرہم عرسال کے مسئلے کودیکھ لیں ہم نے اس حوالے سے گفتگونہیں کی ہے اورنہ ہم کریں گے، لیکن ہم نے سیاسی،امن وامان،وطن اورفوج کے حوالے سے انتہائی حساس طریقے سے بات کی ہے اگرچہ ہم اس حوالے سے بہت کچھ کہہ سکتے ہیں لیکن ہم خاموش رہیں گے،لیکن آپ لوگوں نے دیکھا جب مسلح جماعتوں کی بات آجائے توحزب اللہ کے
حوالے سے سب کچھ بول اٹھتے ہیں،اگراسے ہزارمرتبہ بھی تکرارکیاجائے توکیافائدہ ہوگا؟
آج میں نے اخبار میں پڑھا،مجھے واقعا ًحقیقت کاعلم نہیں تھا” کہ سکیورٹی فورس نے احرارالسنہ سے وابستہ ایک شخص کوگرفتارکیا”کیایہ بات درست ہے؟ وہ کون ہے؟ اس کاکیاتعلق ہے؟ کس کے ساتھ تعلق ہے؟ اس کانتیجہ جوبھی ہو، کیونکہ کیا کسی میڈیاوالوں نے اسے دکھایا؟یہ ضروری ہے کوئی بھی لبنانی کسی بھی قبائلی اورمذہبی حوالے سے انتشارپھیلائے اس کابازپرس ہوناچاہئیے۔ مجھے امید ہے کہ کوئی بھی سیاستدان اس کی رہائی کے بارے میں نہیں بولیں گے اسی طرح کاربمب میں بھی ملوث پانے والوں کے ساتھ بھی ایساہونا چاہئے۔ اس حوالے سے ذمہ داری سے کہہ رہاہوں، یقین کریں یہ سلسلہ خودبخود رک جائے گا۔
علاقائی مفاد: اس بڑی سیاسی صورت حال میں مفادات حاصل ہوں یانہ ہوں اس کاکوئی نہ کوئی نتیجہ نکل جاتاہے،اس میں علاقے والوں کوایک دوسرے کے قریب آناچاہئیے۔ میں یہاں پر عرسال کے حوالے سے واضح اندازمیں گفتگوکرناچاہوں گا: کہ عرسال اوراس کامستقبل بعلبک سے ہرمل تک ہے۔
اے میرے عرسال کے بھائیو: عرسال کامستقبل دراصل بعلبک سے ہرمل اور شمالی بقاع تک ہے،عرسال کا مستقبل النصرہ فرنٹ اورداعش اورجوکچھ سرحدمیں ہورہا ہے وہ نہیں ہے،یہ آپ کامستقبل نہیں ہے،اہل عرسال والوں کے ساتھ کیاہوا حادثے سے قبل یابعدمیں، میں اس حوالے سے کچھ نہیں کہوں گا، لیکن میں یہ ضرورکہوں گا کہ کوئی تومذاکرات کے لئے اٹھے: عرسال،اللبوہ،العین،النبی عثمان،القاع اوریہ تمام علاقے،ان لوگوں کوچاہئِے کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ مل جائیںاور یہ ان کواس خطرے سے بچائے گا،ورنہ یہ خطرہ سب کوبہالے گا،اورسب سے پہلے اہل عرسال ہی آگے بڑھیں ۔
اب دیگرعلاقوں کی طرف جاتے ہیں جہاں اجتماعی رابطے نہ ہونے کی وجہ سے حادثات رونماہورہے ہیں، وہ جبل محسن سے باب التبانہ تک ہے،الضاحیہ سے الشویفات تک، غرب بیروت،صیداء،شبعا اوراس کے اطراف،راشیا،حاصبیا، جہاں فوری اقدامات کرنے کی ضرورت ہے،اس میں حکومت سمیت تمام پارٹیوں،سیاسی قوتوں کی ذمہ داری ہے۔
تمام لوگوں کوذمہ داری اٹھانی چاہئیے،کم ازکم شام کے مہاجرین کے ساتھ تعاون کرناچاہئیے،یہ کہناٹھیک نہیں کہ شام کی حکومت کی خواہش یہ ہے کہ ان کے مہاجرین لبنان میں رہیں،نہ یہ درست ہے کہ ہم لبنان اورشام کے درمیان کوئی راہ نہیں نکال سکتے ہیں ہاں:یہ ذمہ داری دونوں حکومتوں کی بنتی ہے اس لئے کہ اس اہم خطرے سے دونوں آگاہ ہیں۔ میں اس کی تفصیل میں نہیں جاناچاہتاہوں۔ لیکن اس کا حل کیاہے؟ حل یہ ہے کہ ہم صرف تقریرکریں؟ حل کیا اس میں ہے کہ آپ شام کی حکومت گرنے کاانتظار کریں؟داعش کے آنے کاانتظار کریں؟ جب داعش آجائے تومہاجرین وآپس جائیں گے یا لبنان کی مہاجرین کا بہاﺅ مزیدبڑھ جائے گا؟ہم سب لبنانی اس حوالے سے کیاکہتے ہیں؟
کوئی کہیں بھاگنے کی ضرورت نہیں کسی سے ڈرنے کی ضرورت نہیں،بلکہ شام اورلبنان کوسرکاری طورپربات کرنی چاہئیے،سب کے سب میزپربیٹھ کرکہاجائے: ہمارے شامی بھائیو: ہمارے پاس لبنان میں آپ کے ڈیڑھ ملین مہاجرین موجودہیں۔
آجائیے شام میں ایسے علاقے ہیں جہاں پرامن وامان ہے لوگ سکون سے زندگی گزاررہے ہیں،گاڑیوں کے ہجوم لگے رہتے ہیں۔ یہ لوگ وہاں کیسے واپس جاسکتے ہیں؟ اچھااگرکہیں کہ مشکلات ہی نہیں ہیں توہم اسے حل کیسے کرسکتے ہیں؟ بہرحال ہم اس حوالے سے مددکرنے کے لئے تیارہیں،لیکن صرف کانفرنس کاانعقادکراکرسیاسی تقریرکرنے کے لئے نہیں،اس سے کیا مشکلات حل ہوں گی؟
اس حوالے سے حقیقی بات جومیں آپ سے کہناچاہوں گا وہ یہ ہے کہ مثلاًیہ شامی مہاجرین ہیں اورہمارے سامنے سمندراورمقبوضہ فلسطین ہے، تواس کاحل کیاہوناچاہئیے؟ کیایہ ہے کہ ہم انہیں سمندرکے راستے انہیں آسٹریلیا بھیج دیں؟نہیں: بلکہ ہرملک ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھ جائے اوراس پربات کریں توکیاجمہوری حکومتوں میں اس کے لئے کوئی حل موجودنہیں؟۔
اس وقت یہ خطرہ صرف لبنان کے شیعہ یاسنی یافلاں پارٹی یاصرف عیسائی کے لئے نہیں بلکہ سب کے سب اس خطرے سے دوچارہیں۔
آج میں آپ لوگوں کوواضح کردوں،شائد میں نے آج کچھ زیادہ ہی بول دیالیکن کیاکروں مناسبت ایسی تھی کہ میں مختصرنہیں کرسکا۔
براردران گرامی:جیساکہ آپ کے علم میں ہے صدارتی معاملے میں کن سے گفتگوکرنی چاہئیے،ہم توایک ایسی جماعت ہیں جس کے پاس محدود نشستیں ہیں، اورہم کس سے جاکربات کریں،یہ وقت لبنان کے مفاد کو نقصان پہنچارہاہے،کیونکہ اس بات کا لبنانیوں نے ہی فیصلہ کرناہے اورکسی بیرونی فیصلے کانتظارنہیں کرناہے۔
اس کے علاوہ اندرونی معاملات پربھی گفتگوہونی چاہئیے جیساکہ پانی کے مسائل،بجلی کے مسائل اس لئے کہ بہت سے ایسے گاﺅں بھی ہیں جہاں پربجلی نہیں ہے،جہاں پانی نہیں ہے،میں آج آپ کوپورامنصوبہ تونہیں دے سکتا، مگرہم اس ملک کے لئے ہرقسم کی قربانی دینے کے لئے تیارہیں،تبھی توہم روزانہ شہداء پیش کررہے ہیں،ان جنگوں میں ہمارے مجاہدین زخمی بھی ہوئے ہیں،لیکن ہم نے اپنی عوام کی خدمت میں کبھی بھی بخل سے کام نہیں لیاہے،اس لئے ان جنگوں کوہم اپنے لئے کرامت سمجھتے ہیں اسی طرح ہم ہمیشہ قربانی دینے کے لئے تیارہیں۔میںاپنی تقریرکو دوجملوں پرختم کرناچاہتا ہوں ۔
میں تمام لبنانیوں،علاقے کے تمام عوام،داعش اوراس کے پیچھے کارفرماعناصرجوعنقریب ہزیمت اٹھانے والے ہیں۔
جی ہاں: اسرائیل سے لڑنا داعش سے زیادہ مشکل ہے اس لئے کہ داعش کی جنگ کاایک حصہ نفسیاتی جنگ ہے جس کی تفصیل میں اس وقت نہیں جاناچاہتا۔
تویہ سوال آتاہے کہ کیااس خطرے سے مقابلہ کیاجاسکتاہے؟جی ہاں اس جماعت کے لئے خطے میں کوئی مستقبل نہیں ہے اگرہم متفق ہوجائیں، ادھرعراقی،شامی،لبنانی اورہرعرب ممالک مل کراپنی اپنی ذمہ داریوں کوسمجھتے ہوئے ان پرعمل کریں تویہ خودبخود ختم ہوجائے گی جیساکہ میں اپنی ہرتقریرسے پہلے کہتارہتاہوں کہ یہ آسانی سے شکست سے دوچارہوگی۔
آج میں جولائی 2006ءکی جنگ کی سالگرہ کے موقع پرتمام عربی ،لبنانی،حکومت،فوج کو کہنا چاہتاہوں کہ انشاءاللہ تمام مساجد،کلیسائیں سب کچھ محفوظ رہیں گے۔اورمیں یہ واضح کرناچاہتاہوں جواپنی ذمہ داری سے عہدہ برآں ہو توجائے لیکن ہم کبھی بھی اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برآں ہونے والے نہیں ہیں،ہم دنیامیں کسی اورجگہ ہجرت کرنے والے نہیں ہیں،اور نہ ہی ہم کسی دوسرے ملک میں شہریت حاصل کرنے والے ہیں،ہم اس سرزمین کو چھوڑنے والے نہیں ہیں،ہم یہاں پرسراٹھاکرجئیں گے وقت آنے پرجنگ بھی کریں،شہیدبھی ہوں گے اورآخرمیں یہاں پرہی دفن ہوں گے۔
یہ ہمارااختیارہے باقی دیگرلبنانیوں کے اپنے اختیارات ہیں،ہم اپنے وطن،عوام کے سامنے تمام خطرات سے نمٹنے کے لئے تیارہیں،ہم پراپنی ذمہ داری واجب ہے اسی طرح ہم اپنے شہداءکے خون، تمام لبنانی عوام نے جومصائب وآلام جن آرزﺅں کے لئے برداشت کی ہیں،رائیگاں نہیں جانے دیں گے،ہم اپنے ملک کی حفاظت کرسکتے ہیں،ہم کامیابی حاصل کرسکتے ہیں،ہم اپناسرکبھی بھی نہیں جھکائیں گے،ہم ہزیمت ہرگزنہیں اٹھائیں گے،ہم نہیں بھاگیں گے،ہم اس خطے کے نقشے کوبدل کررکھ دیں گے،جیساکہ ہم نے جولائی 2006ءکی جنگ میں ثابت کرکے دکھایا،یہ چھوٹاسالبنان اس خطے کے نقشے کوعنقریب بدل دے گا، آپ سب کو اس کامیابی پردوبارہ مبارک پیش کرتاہوں اورآئیندہ بھی انشاءاللہ اخلاص،قربانی کی بدولت آپ کوکامیابیاں ملتی رہیں گی۔
والسلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ
خصوصیی شکریہ : ٹیم فلسطین فائونڈیشن پاکستان