فلسطین نیوز کو موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق غزہ کی پٹی کے محاصرے اور پابندیوں کے خلاف سرگرم عوامی کمیٹی کے چیئرمین اور رکن پارلیمان جمال الخضری نے کہا کہ صہیونی ریاست کی طرف سے مسلط کردہ پابندیوں سے ہرشعبہ ہائے زندگی کا فلسطینی متاثر ہوا ہے۔ سب سے تباہ کن اثرات شہریوں کی معیشت پر مرتب ہوئے ہیں۔ معاشی مشکلات نے دوسرے بحرانوں میں بھی شدت پیدا کی اور زندگی مزید پیچیدہ اور مشکل ہوتی جا رہی ہے۔
جمال الخضری کا کہنا ہے کہ اسرائیلی ریاست کی مسلط کی گئی معاشی پابندیوں کے ساتھ فلسطینی اتھارٹی نے بھی انتقامی سیاست شروع کررکھی ہے جس نے مقامی آبادی کی مشکلات میں مزید اضافہ کیا ہے۔
جمال الحضری نے بتایا کہ صہیونی ریاست کی مسلط کی گئی پابندیوں کے باعث غزہ کے 80 فی صد شہری غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں جب کہ غزہ میں بے روزگاری کی شرح 60 فی صد ہے جو عالمی سطح پر بے روزگاری کا ایک نیا ریکارڈ ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ اسرائیلی پابندیوں کے نتیجے میں غزہ کی پٹی میں جہاں شہریوں کو معاشی مشکلات سے دوچار کیا ہے وہیں دیگر کئی بحران بھی سر اٹھا رہے ہیں۔ صہیونی پابندیوں اور فلسطینی اتھارٹی کی انتقامی سیاست نے فلسطینی دھڑوں میں مفاہمت کے امکانات کو بھی دور کیا ہے اور تمام شعبہ ہائے زندگی پر تباہ کن اثرات مرتب کیے ہیں۔
خیال رہے کہ اسرائیل نے 2006ء میں فلسطین میں ہونے والے پارلیمانی انتخابات میں اسلامی تحریک مزاحمت ’حماس‘ کی کامیابی کے بعد غزہ کے عوام پر اجتماعی سزا کے طور پر معاشی پابندیاں عائد کردی تھیں۔ ان پابندیوں کو مسلط ہوئے آج گیارہ سال ہوگئے ہیں۔