فلسطین نیوز کو موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق اسلامی یونیورسٹی کی فاضلہ ہویدا ابو یعقوب بھی ایسی ہی ایک گھریلو صنعت کار خاتون ہیں۔ گریجوایٹ خاتون اسلامی اسکالر ابو یعقوب نے پانچ سال قبل گھروں میں استعمال ہونے والی قدرتی اشیاء سے صابن سازی کا کام شروع کیا۔ یہ بالکل Â ایک نیا فن اور فارمولہ تھا جس کا دنیا میں اور کہیں کوئی وجود نہیں۔ قدرتی مواد سے تیار کردہ دیسی صابن اگرچہ Â بازار کی نسبت مہنگا ہے مگر صارفین کے لیے ہرطرح کے مضر اثرات سے پاک ہے۔ اس صابن کا کوئی سائیڈ افیکٹ نہیں۔
قدرتی اشیاء سے صابن سازی کی یہ گھریلو صنعت غرب اردن کے شمالی شہر نابلس میں ایک گھر میں قائم کی گئی ہے۔ قدرتی اشیاء سے صابن سازی کا تخیل ھویدا ابو یعقوب کے ذہن میں بہت پہلے آیا۔ اس کا کہنا ہے وہ کم عمری میں جب گھروں میں استعمال ہونے والے صابن کو استعال کرتی تو اس کے مضر صحت اثرات سے بچنے کے لیے کوئی متبادل صابن کے بارے میں سوچتی رہی ہیں۔ یہ کارخانہ اس کا اپنا اور ذاتی تخیل اور ایجاد ہے۔
قدرتی اجزاء
ھویدا ابو یعقوب نے اپنے گھر میں صابن سازی کے لیے جن قدرتی اجزاء اور اشیاء کا انتخاب کیا وہ نایاب تو نہیں البتہ مہنگی ضرور ہیں۔ ان میں بکری کا دودھ، شہد، کلونجی، زیتون کا تیل، بحر مردار کی مٹی اور متعدد دیگر اجزاء شامل ہیں۔
ھویدا کا کہنا ہے کہ مذکورہ قدرتی اجزاء سے صابن سازی ایک مہنگا کام ہے مگر صارفین کے لیے یہ کسی بھی طرح مضر صحت نہیں۔
’قدس پریس‘ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ قابل اعتماد اور قابل اعتبار ذرائع سے صابن کے لیے قدرتی اجزاء حاصل کرتی ہیں۔ پہلے تو وہ اپنے گھر کے کچن میں یہ کام کرتی رہی ہیں مگر اب اس نے گھر میں ایک کمرہ بھی مختص کر رکھا ہے۔
ھویدا کا کہنا ہے کہ وہ تمام اجزاء کو آپس میں ملا کران کا مرکب تیار کرتی ہیں۔ ہرچیز اپنی ایک خاص مقدار سے اس میں شامل کی جاتی ہے۔ مرکب تیار کرنے کے بعد اسے سانچوں میں ڈال کر دو دن تک متعدل درجہ حرارت میں چھوڑ دیا جاتا ہے۔ دو روز تک خشک ہونے کے بعد اسے صاف کرکے پیکٹوں میں پیک کیا جاتا ہے اور انہیں بازارمیں فروخت کے لیے پیش کیا جاتا ہے۔
ھویدا ابو یعقوب کا کہنا ہے کہ اس نے قدرتی اشیاء سے صابن سازی کے فن کے بارے میں دنیا کے مختلف خطوں سے تعلق رکھنے والے ماہرین سے معلومات حاصل کیں۔
اس نے کہا کہ صابن سازی کی صنعت نے اس کے لوگوں سے سماجی تعلقات کو فروغ دینے میں بھی مدد کی ہے۔ صابن سازی کے حوالے سے اس کے رابطے اندرون فلسطین کے ساتھ بیرون ملک بھی ہیں۔ صابن سازی کے باعث اب برطانیہ، جرمنی اور امریکا جیسے ملکوں میں بھی اس کے گاہک بن چکے ہیں۔ ایسا ہی صابن ان ملکوں میں پہلے سے بھی بنایا جاتا ہے۔
مسزھویدا نے بتایا کہ اس نے 2016ء میں قدرتی اشیاء سے صابن کی 300 کلو گرام ٹکیاں تیار کیں۔ رواں سال کے آخر تک اس کا ہدف ایک ہزار کلو گرام صابن تیار کرنا ہے۔ اسے توقع ہے کہ وہ رواں سال صابن سازی کا اپنا ہدف پورا کرلیں گی۔
دیگر مصنوعات
ایک سوال کے جواب میں ھویدا ابو یعقوب نے بتایا کہ صابن سازی کے لیے اس نے متعلقہ حکام سے باقاعدہ پرمٹ حاصل کر رکھا ہے اور وہ قانونی طور پریہ کام کررہی ہیں۔ حکومت کی طرف سے بھیجیی گئی ٹیموں نے کارخانے میں تیار ہونے والے صابن کا تجربہ گاہ میں باقاعدہ چیک اپ کیا اور فلسطینی ایوان صنعت و تجارت اور وزارت اقتصادیات سے ٹریڈ مارک جاری کیا ہے۔
’’میرا‘‘ کے نام سے قائم کردہ صابن فیکٹری میں بعض دیگر اشیاء بھی تیار کرنے کا کام شروع کیا گیا ہے۔ کاسمیٹکس بالخصوص کریمیں اور میک اپ کا سامان بھی تیار کیا جانے لگا ہے۔
روز بہ روز اس کے کارخانے میں تیار ہونے والے صابن اور دیگر اشیاء کی مانگ بڑھتی جا رہی ہے۔
ھویدا نے بتایا کہ اس کی گھریلو صنعت 12 ہزار قطعے صابن کے تیار کرنے کی صلاحیت ہے۔ اس نے بتایا کہ وہ روزان آٹھ گھنٹے خود کام Â کرتی ہیں۔
صابن کی قیمت کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں ھویدا نے بتایا کہ مہنگے قدرتی اجزاء کی وجہ سے صابن کافی مہنگا ہے۔ صابن کی ایک ٹکیہ کی قیمت 5 امریکی ڈالر کے برابر ہے۔ اس کی فیکٹری میں تیار کردہ صابن مہنگا ضرور ہے مگر انسانی استعمال میں بے ضرر اور ماحول دوست ہے۔