اسرائیل کی ایک خاتون سیاسی رہ نما نے مساجد سے گونجے والی اذان کی آوازوں کوناپاک جانور”خنزیر” کی آواز کے مشابہ قراردیا ہے جس کے بعد پورے فلسطین میں صہیونی خاتون کے اس اشتعال انگیزبیان پرغم وغصے کی ایک نئی لہردوڑ گئی ہے۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق مقبوضہ فلسطینی شہر حیفا کی بلدیہ کی نائب چیئر پرسن یولیا اشٹرائم نے ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ فلسطین کی تمام مساجد میں اذان پرمستقل پابندی لگادی جائے۔ انہوں نے کہا کہ اذان کی آوازوں اور خنزیر کی چیخ چنگاڑ میں[ناعوذ باللہ] کوئی فرق نہیں ہے بلکہ اذان کی آواز اس سے بھی بدتر ہے کیونکہ یہ یہودیوں کے لیے مستقل پریشانی کا باعث ہے۔ انہوں نے کہا کہ حیفا شہرمیں مساجد میں اذان پرپابندی لگادی جائے گی کیونکہ وہ اذانیں سن سن کر تنگ آچکے ہیں۔حیفا بلدیہ کے ایک عرب نائب چیئرمین سہیل اسعد نے مسز اشٹرائم کے بیان پر کڑی تنقید کی۔ انہوں نے کہا کہ اشٹرائم کے بیان سے نسل پرستی، رعونت، تکبر جاہلیت کھل کرسامنے آگئی ہے۔ انہوں نےیولیا اشٹرائم سے اپنے نازیبا الفاظ پر مسلمانوں سے معافی مانگنے کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ مساجد میں اذان اوریہودی گرجا گھروں میں بجنے والی گھنٹیاں صدیوں سے چلی آرہی ہیں اور یہ اشٹرائم جیسےانسانیت دشمن لوگوں کی خواہش پربند نہیں کی جاسکتیں۔ مقبوضہ فلسطین کی نمائندہ تنظم اسلامی تحریک نے "یولیا اشٹرائم ” کے بیان کو شرمناک اور اسلام کے خلاف کھلا اعلان جنگ قراردیا ہے۔
اسلامی تحریک کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ جولوگ فلسطینی مساجد میں اذان سے تنگ ہیں وہ فلسطین سے نکل جائیں۔ اشٹرائم نے ایک ایسا بیان دیا ہے جو صہیونیوں کی گھٹیا سوچ کی عکاسی کرنے کے ساتھ ساتھ فلسطینیوں کے جذبات کو مشتعل کرنے کی گھناؤنی سازش ہے۔اسلامی تحریک کا کہنا ہے کہ مسلمانوں کے شعائر کا مذاق اڑانے والے بیمار ذہن اپنی نفرت کی بھڑکائی ہوئی اپنی آگ میں خود جل مریں گے اور اسلام اور مسلمانوں کو اس کا کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔