اسرائیل کے ایک مذہبی جنونی”مائیکل ڈینس روہن” نے 21 اگست سنہ 1969ء کومسجد اقصٰی کے مشرقی حصے میں مذہبی جنونیت اور انتہا پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے آگ لگائی۔ اس آگ کی لپیٹ میں مسجد کے کئی اہم تاریخی حصے آئے ہیں لیکن عالم اسلام کے مشہور سپہ سالار سلطان صلاح الدین ایوبی کی فتح بیت المقدس کی علامت "منبر صلاح الدین” کو اس آگ نے مکمل طور پر جلا کر خاکستر کر دیا تھا
چوالیس سال پیشتر ڈینس روہن کی اس ناپاک حرکت پر کوئی کارروائی کرنے یا اس کی تحقیقات کے بجائے اسرائیلی حکومت نے مجرم کو بچانے کی کوشش کی اور اسے ذہنی اور نفسیاتی مریض قرار دے کر آسٹریلیا روانہ کر دیا، لیکن بد قسمتی سے آج ہمیں یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ مجرم مائیکل ڈینس روہن تو بچ گیا اور اسے سیرو سیاحت کے لیے آسٹریلیا بھی روانہ کر دیا گیا لیکن مسجد اقصٰی کے خلاف صہیونیوں کی سازشیں ماضی کی نسبت زیادہ شد و مد کے ساتھ شروع کرد ی گئی ہیں۔
مسجد اقصٰی کو درپیش خطرے کا یہ کالا ناگ آج زیادہ طاقت کے ساتھ ہمارے سامنے پھن پھیلائے کھڑا ہے۔ آج ایک مائیکل ڈینس کے بجائے ہزاروں مائیکل ڈینس اور ان کے منظم مذہبی انتہا پسند گروہ قبلہ اول کو نقصان پہنچانے کے لیے سرگرم عمل ہیں۔
انتہا پسند یہودی تنظیموں کے مطالبات پر مسجد اقصیٰ کو یہودیوں اور مسلمانوں میں تقسیم کرنے اور قبلہ اول پر یہودی رنگ چڑھانے کی جو سازشیں اب ہو رہی ہیں۔ وہ سنہ 1969ء کی آتش زدگی کے ہولناک واقعے سے زیادہ تباہ کن ہیں۔
زمانی اعتبار سے تو یہودی آبادکاروں نے پہلے ہی قبلہ اول کو ایک طرح سے تقسیم کر رکھا ہے اور اب یہ سلسلہ مسجد کو مکانی اعتبار سے یعنی اسے ٹکڑوں میں تقسیم کرنے کے مطالبات کی طرف بڑھ رہا ہے۔ اس ضمن میں اسرائیل کی ایک انتہا پسند تنظیم”یچائی آرگنائیزیشن” کا بیان قابل غور ہے جس میں اس نے دوٹوک الفاظ میں کہا ہے کہ وہ مسجد اقصٰی کی اراضی کے ایک حصے پر معبد کی تعمیر کا کام کر رہے ہیں وہ دراصل مسجد اقصٰی کی تقسیم ہی کی طرف ایک قدم ہے۔ مجوزہ معبد کی تصاویرپیش کرتے ہوئے تنظیم کی جانب سے کہا گیا ہے کہ فی الحال ہم معبد کی تعمیر کے لیے آہستہ آہستہ کام کر رہے ہیں،کیونکہ ہمیں تمام یہودی دھاروں اور مذہبی گروپوں کی حمایت درکار ہے۔ جیسے ہمیں مطلوبہ حمایت میسر آ جائے گی ہم ایک دھماکے کے ساتھ وہاں کام شروع کر دیں گے۔
"یچائی آرگنائیزیشن” کا مزید کہنا ہے کہ مسجد اقصٰی کی اراضی پر معبد کی تعمیر تو ایک چھوٹا منصوبہ ہے۔ اصل منصوبہ تواس سے کہیں بڑا ہے جو پوری مسجد اقصٰی پر محیط ہو گا۔ ہم اسے ہیکل سلیمانی کے نام سے جانتے ہیں۔
یہودی شرپسند گروپ کی جانب سے مزید کہا گیا ہے کہ چند روز پیشتر اسرائیلی حکومت نے مسجد اقصٰی کی اراضی پر”یہودی معبد” کی تعمیر میں حصہ لینے والی تنظیموں کی رجسٹریشن شروع کی تھی، جس کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ اس کا ایک بڑا فائدہ یہ ہوا ہے کہ یہودی آبادکار اطمینان کے ساتھ مسجد اقصٰی میں داخل ہو کر عبادات کر رہے ہیں۔ حکومت کے اس اقدام نے یہودی مذہبی مدارس کے طلباء کو خاص طوپر متاثر کیا ہے جو اب روز مرہ کی بنیاد پر مسجد اقصیٰ میں داخل ہوتے ہیں۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ مسجد اقصیٰ کے پہلو میں یہودی معبد کی تعمیر کے لیے جگہ کا تعین نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ معبد کے لیے مسجد اقصیٰ کے جنوب مشرقی حصے مصلیٰ مروانی کے داخلی راستے کی جگہ منتخب کی گئی ہے۔ چونکہ مصلیٰ مروانی اور دیگر دو دروازے مستقل طور پر بند کیے جا چکے ہیں۔ اس لیے یہودیوں کے لیے وہاں پراپنی سرگرمیوں کا آغاز آسان رہے گا۔
خطرناک اسکیم
مسجد اقصٰی کی اراضی پر معبد کی تعمیر کے منصوبے نے فلسطینی علماء اور عوامی حلقوں میں سخت اشتعال پیدا کیا ہے۔ فلسطینی محکمہ اوقاف اسلامیہ کے ڈائریکٹر برائے القدس الشیخ عزام الخطیب کا کہنا ہے کہ "یہ ایک نہایت خطرناک اور یہودیوں کی جنونیت کا مظہر منصوبہ ہے جس کے خطرات کا درست اندازہ لگانا بھی ناممکن ہے”۔
خبر رساں ایجنسی قدس پریس سے بات کرتے ہوئے شیخ الخطیب کا کہنا تھا کہ یہودی معبد کی تعمیر کے اعلان کے بعد مسجد اقصٰی کے صحن کے اور آس پاس کا 144ایکڑ علاقہ یہودیت کے خطرے سے دوچار ہے۔
ادھر مسجد اقصٰی کی تعمیرو مرمت کی ذمہ دار تنظیم "الاقصٰی فاؤنڈیشن و ٹرسٹ” نے یہودی معبد کی اسکیم کو اب تک کی غیرمعمولی اور نہایت تباہ کن سازش قرار دیا ہے۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ معبد کی تعمیر کا یہ منصوبہ براہ راست مسجد اقصیٰ پر حملے کی سازش ہے، جس میں اسرائیلی نائب وزیر برائے مذہبی امور ایلی بن ڈھان اور حکومت کے کئی دیگر سرکردہ عہدیدار شامل ہیں۔
خطرے کے تین محور
اقصیٰ فاؤنڈیشن کا کہنا ہے کہ قبلہ اول کی آتش زدگی کے سانحے کے بعد اسرائیلی حکومت نے مسجد اقصٰی کے خلاف سہ محوری سازش شروع کی۔ سازش کا پہلا محور قبلہ اول کی یہودیوں اور مسلمانوں میں تقسیم کی کوششیں ہیں۔ اس سازش کو عملی جامہ پہنانے کے لیے روز مرہ کی بنیاد پر انتہا پسند یہودیوں کو مسجد اقصیٰ میں داخل کرنا اور مقدس مقام کی بے حرمتی کرتے ہوئے یہاں پر معابد کی تعمیر کے لیے راہ ہموار کرنا ہے۔
یہودیوں نے مسجد اقصیٰ کی تقسیم کوعملی شکل دینے کے لیے یہودی شرپسندوں کی عبادت کے اوقات متعین کیے ہیں۔ ان اوقات میں اسرائیلی فوج اور پولیس کی حفاظتی چھتری تلے یہودی آباد کار قبلہ اول میں داخل ہوتے ہیں اور مذہبی رسومات کی ادائیگی کے ساتھ وہ سب کچھ کرگذرتے ہیں جو وہ چاہتے ہیں۔
سازش کا دوسرا محور مسجد اقصیٰ کی بنیادوں میں جاری کھدائیاں ہیں۔ کئی سال سے جاری اس سازش کے تحت قبلہ اول کی بنیادوں میں سرنگوں کا ایک جال بچھا دیا گیا ہے جس کی مجموعی لمبائی 3000 میٹر سے متجاوز ہے۔ یوں مسجد اقصیٰ عملی طور پر ایک مضبوط زمین کے بجائے سرنگوں کے اس جال پر کھڑی ہے جو کسی بھی وقت زمینی زلزلے یا کسی بھی دوسرے حادثے کے باعث زمین بوس ہو سکتی ہے۔ یہ سرنگیں جنوب میں سلوان کے مقام سے شروع ہوتی ہیں اور عین مسجد اقصیٰ کے نیچے سے گذرتے ہوئے شمال میں باب العمود تک جاتی ہیں۔
مسجد اقصیٰ کو مسلمانوں سے چھیننے اوراس پر مستقل قبضے کا تیسرا محور "یہودیت” کا فروغ ہے۔ اسرائیل کی پے درپے حکومتوں نے مسجد اقصیٰ کے آس پاس کے مقامات کو فلسطینیوں سے خالی کرانے کے بعد یہاں غیرمعمولی انداز میں یہودی منصوبے شروع کیے ہیں۔ اس تیسرے خطرے کے محورکی تباہ کاری کا اندازہ اس امرسے لگایا جا سکتا ہے مسجد اقصٰی کے جنوب اور مغربی سمت میں100 مذہبی مدارس "معابد” کی تعمیر پرعمل کیا جا رہا ہے۔ قبلہ اول کے قرب وجوار میں تلمودی اور یہودی مذہبی پارک، عجائب گھر اور یہودیوں کے لیے رہائشی فلیٹس اس کے علاوہ ہیں۔ یہ تین وہ بنیادی محور ہیں جومائیکل ڈینس روہن کے ہاتھوں قبلہ اول کو آگ لگا کر شہید کرنے کی سازش کی ناکامی کے بعد شروع کیے گئے ہیں۔
بشکریہ:مرکزاطلاعات فلسطین