فلسطین کے مقبوضہ علاقے مغربی کنارے میں انتہا پسند یہودیوں کے فلسطینیوں پر حملوں میں تیزی کا ایک نیا ریکارڈ سامنےآیا ہے۔ یورپی یونین کے عہدیداروں کی جانب سے ایک رپورٹ تیار کی گئی ہے
جسے انہوں نے اپنے تئیں خفیہ رکھا تھا۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ سنہ 2011ء میں انتہا پسند یہودیوں نے مقبوضہ مغربی کنارے کے علاقوں میں کم سے کم 411 حملے کیے جن میں ایک فلسطینی شہید، درجنوں زخمی اور بڑے پیمانے پر فلسطینیوں کی املاک کو تباہ کیا گیا۔
مرکز اطلاعات فلسطین کو یورپی یونین کے عہدیداروں کی جانب سے تیار کردہ اس رپورٹ کے اعدادوشمار ملے ہیں جن میں فلسطینیوں پر یہودی آبادکاروں کے حملوں کو”جارحانہ” قرار دیا گیا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سنہ 2010ء کی نسبت سنہ 11ء میں یہودی آباد کاروں نے فلسطینیوں پر حملوں میں تین گنا اضافہ کیا۔ 2010ء میں مغربی کنارے میں فلسطینیوں کی املاک پرکل 132 حملے رجسٹرڈ کیے گئے تھے جبکہ گذشتہ برس رجسٹرڈ حملوں کی تعداد چار سو سے تجاوز کر گئی ہے۔
یورپی عہدیداروں نے رپورٹ کی تیاری کےساتھ ساتھ صہیونی سیکیورٹی حکام اور حکومت کے کردار کا بھی تجزیہ کیا ہے جس کے بعد کہا گیا ہے کہ اسرائیلی حکومت دانستہ طور پر انتہا پسند یہودیوں کی کارروائیوں پر آنکھیں بند کیے ہوئے ہے۔ مغربی کنارے میں جہاں یہودی آباد کاروں کو ہرقسم کا تحفظ اور شہری سہولتوں کا حق حاصل ہے وہیں ، عربوں، فلسطینیوں اور غیریہودیوں کو بھی اس حق سے محروم نہیں کیا جا سکتا۔ اسرائیلی حکومت اور فوج کی پالیسی سے ایسے لگتا ہے گویا وہ فلسطینیوں کے ساتھ دانستہ طور پر امتیازی سلوک کا مظاہرہ کر رہی ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ انتہا پسند یہودیوں نے گذشتہ ایک برس کے دوران مغربی کنارے میں بڑے پیمانے پر فلسطینیوں کے مکانات پر حملے کر کے انہیں گرا دیا، فلسطینیوں کے فصلوں سے لہلاتے کھیت اجاڑ دیے گئے۔ کم سے کم ایک سال کے دوران زیتون کے دس ہزار درخت جڑوں سے اکھاڑ دیے گئے یا انہیں جلا دیا گیا۔
دوسری جانب اسرائیلی انتظامیہ کے انصاف کا یہ حال ہے کہ اس نے فلسطینی شکایت کندگان کی شکایت پر کان دھرنے کے بجائے الٹا انہیں زد و کوب کرنے کا سلسلہ جاری رکھا۔ فلسطینیوں کی نوے فی صد شکایات کو ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا گیا۔
رپورٹ میں مغربی کنارے میں یہودی آباد کاروں کی تعداد اور ان کے فلسطینیوں پر حملوں کے بارے میں لکھا ہے کہ انتہا پسند یہودیوں تین لاکھ سے زیادہ ہے اور یہ 200ء سے زیادہ مقامات میں ٹھہرائے گئے ہیں۔ یہودی آباد کار فلسطینیوں حملے کرتے رہتے ہیں لیکن اسرائیلی فوج اور پولیس اس وقت وہاں جاتے ہیں جب وہ فلسطینی جوابی کارروائی کرتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں انتہا پسند یہودیوں کو تو اپنی کارروائیوں کی کھلی چھٹی ہوتی ہے لیکن قابض اسرائیلیوں پر جب فلسطینی جوابی کارروائی کے تحت حملہ کرتے ہیں تو یہودی فوجی انتہا پسند یہودیوں کی مدد کو پہنچ جاتے ہیں۔
بشکریہ: مرکز اطلاعات فلسطین