اسرائیلی سکیورٹی فورسز نے مغربی کنارے کے شہر نابلس سے ایک بائیس سالہ فلسطینی نوجوان کو گرفتار کرلیا ۔ حسن عبد الحلیم گزشتہ دس سال سے کینسر کے مرض میں مبتلا تھا اور مختلف ہسپتالوں سے اس خطرناک مرض کا علاج بھی کروا چکا تھا۔
اب وہ اپنے علاج کی تکمیل کے لیے اردن جانے کے لیے پر تول رہا تھا کہ صہیونی فوج نے گھر پر چھاپہ مار کر اسے حراست میں لے لیا۔
نابلس کے گاؤں صرہ سے تعلق رکھنے والے عبد القادر ترابی کو گرفتار کرکے تفتیش کے لیے مجدو جیل منتقل کردیا گیا ہے جہاں پر کینسر کی بے پناہ تکالیف کے ساتھ ساتھ اب اسے صہیونی خوں خوار تفتیش کاروں کا تشدد اور مظالم بھی سہنے ہیں۔
اسرائیلی فوج نے پہلی مرتبہ کسی کینسر کے مریض کو پابند سلاسل نہیں کیا۔ اسیران مطالعاتی مرکز، فلسطین کے مطابق عبد القادر ترابی کی گرفتاری کے بعد صہیونی عقوبت خانوں میں کینسر کی اذیت میں مبتلا فلسطینیوں کی تعداد تیرہ ہوگئی ہے۔ دو ماہ قبل صہیونی حکومت نے الخلیل سے تعلق رکھنے والے سرطان کے مرض میں مبتلا نبیل نعیم نتشہ کوپندرہ ماہ کی خوفناک قید سے رہا کیا تو زیر حراست کینسر کے مریضوں کی تعداد سے تیرہ سے کم ہوکر بارہ رہ گئی تاہم ترابی کی گرفتاری کے بعد یہ تعداد پھر سے تیرہ تک جا پہنچی ہے۔
اسیران مطالعاتی مرکز، فلسطین نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ اسرائیلی جیلوں میں موجود ان کینسر کے مریضوں کو مناسب علاج کی سہولیات میسر نہیں ، نہ ہی اسرائیلی حکام علاج کے لیے ان مریضوں کو رہا کرنے کو تیار ہیں۔ مرکز کے مطابق اس وقت طولکرم سے تعلق رکھنے والے ستائیس سالہ معتصم طالب رداد کی حالت انتہائی خطرناک ہے۔ کینسر کی خطرناک اسٹیج پر پہنچنے کے بعد صہیونی حکام نے انہیں رملہ جیل کے ہسپتال میں منتقل کردیا ہے جہاں پر ان کی کیموتھراپی ہورہی ہے اور ڈاکٹرز نے آپریشن کے ذریعے ان کی آنتیں کاٹ ڈالنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔
کینسر کے ایک اور مریض پینتالیس سالہ خلیل ابراھیم ابوھدروس ہیں، بیت لحم سے تعلق رکھنے والے ابو ھدروس کی بائیں ران میں کینسر ہے ، مناسب علاج نہ ہونے کے باعث ان کی مرض بھی خطرناک اسٹیج تک جا پہنچا ہے۔ سرطان کے شکار رافت ترکمان اور فواز سبع کے بارے میں کچھ ماہ قبل سے انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں سے مطالبات کیے جا رہے ہیں کہ ان دونوں کی زندگیوں کو بچانے کے لیے فوری اقدامات اٹھائے جائیں۔ بیماروں کے حق میں اٹھائی گئی اس آواز کا عالمی برادری کو کوئی اثر ہوا نہ ہی صہیونی جیل انتظامیہ کو۔
اسیران مطالعاتی مرکز کے تحقیق کار یاض اشقر نے مزید تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ کینسر جیسے مرض کی شدت و تکلیف میں مبتلا اسیر مریضوں میں سے کاید حسن ھیرون کاتعلق نابلس سے ہے۔ انہیں مثانے کا کینسر ہے۔ باوجودیکہ ان کی حالت دن بدن خراب ہوتی جارہی ہے اور ان کی زندگی کی امیدیں مایوسیوں میں بدلتی جارہی ہیںاسرائیلی حکام ان کو سنائی گئی نو سالہ قید کو پورا کروانے پر مصر ہیں۔ نابلس کے فواز سبع کو کان کا کینسر ہے تو القدس کے عامرمحمد بحر کو آنتوں میں سرطان ہے۔ تاہم یہ دونوں بھی سال 2004 سے بطور قیدی علاج کی سہولتوں سے محروم ہیں۔
نو فروری سن 2003 سے زیر حراست چھتیس سالہ رأفت ترکمان کو دس سال صہیونی جیل انتظامیہ کا ذلت آمیز سلوک برداشت کرنا ہے چنانچہ اس دوران ان کے چہرے کے سرطان قابل علاج ہوتے ہوئے بھی ناقابل علاج قرار پایا ہے۔
اسیر طارق محمد عاصی کی بیماری کی تشخیص کولن کینسر کے طور پر ہوئی مگر سن 2005 سے زیر حراست عاصی کو بیس سالہ قید بھی کاٹنا ہے۔ حمزہ طرایرہ کا تعلق بھی الخلیل سے ہے انہیں اس سے قبل بھی گرفتار کرکے رہا کیا جا چکا ہے مگر چند ماہ قبل منہ کے کینسر میں مبتلا طرایرہ کو دوبارہ پابند سلاسل کردیا گیا۔ احمد محمد سمارہ آٹھ سال قید کے سزا یافتہ ہیںتو ساتھ ہی تھائی رائیڈ گلینڈ کے کینسر میں بھی مبتلا۔ کینسر کے مریض اور صہیونی عقوبت خانوں کے اسیر ایاد شعبان کا تعلق غزہ سے ہے ۔ حازم خالد مقدادساڑھے چال سال کی قید کے مستحق قرار دیے گئے ہیں جہاں جگر کا کینسر بھی ان کے ساتھ ساتھ ہے۔
اسیران مطالعاتی مرکز نے اسرائیلی فوج کی جانب سے انتہائی خطرناک مرض میں مبتلا اسیران کو قید میں رکھنے اور انہیں علاج کی سہولیات فراہم نہ کرنے پر شدید تنقید کی اور انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں اوردنیا بھر میں انسانیت کا درس دینے والے ممالک سے اپیل کی ہے کہ وہ اپنی سرزمین کی آزادی کی آواز بلند کرنے کی پاداش میں قید کردیے جانے والے ان کینسر کے مریضوں کی رہائی کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔
بشکریہ:مرکز اطلاعات فلسطین