مرکزاطلاعات فلسطین نے ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ پچھلے کچھ عرصے سے بیت المقدس میں جہاں ایک طرف یہودی آباد کاروں کی اوسط آمدن میں غیرمعمولی اضافہ ہوا ہے وہیں فلسطینی شہریوں کی اوسط آمدن میں بتدریج کمی آ رہی ہے۔ اس کی کئی وجوہات ہیں۔ صہیونی حکومت کی جانب سے بیت المقدس کے فلسطینی باشندوں اور یہودی آباد کاروں کے درمیان جو امتیاز سلوک روا رکھا ہوا ہے اس کے نتیجے میں یہودی امیر سے امیرتر اور فلسطینی غریب سے غریب تر ہورہےہیں۔ یہودی آباد کاروں کو ریاست کی جانب سے اشیائے ضروریہ پر سبسڈی فراہم کرنے کے ساتھ ہرقسم کی معاشی اور مادی سہولت مہیا کی جاتی ہے۔ دوسری جانب فلسطینی شہری بنیادی شہری سہولیات سے بھی محروم ہیں۔ رہی سہی کسر اسرائیلی حکومت کی طرف سے عاید کردہ کمر توڑ ٹیکسوں اور بھاری جرمانوں نے پوری کردی ہے۔ ظلم کی انتہا یہ ہے کہ فلسطینیوں نے کوئی قدم اٹھایا نہیں کہ ان پرجرمانہ پہلے سے تیار ہوتا ہے۔ مکان بنانے پرجرمانہ، مکان گرانے میں تاخیر پرجرمانہ، دکان بنانے حتیٰ کہ خوانچہ فروشوں کو ٹیکسوں اور جرمانوں سے نوچنے کا سلسلہ جاری ہے۔
رپورٹ کے مطابق اسرائیلی حکومت کی جانب سے عاید پابندیوں کے نتیجے میں بازاروں میں اشیائے ضروریہ کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرتی ہیں جو شہریوں کی پہنچ سے دور ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بازاروں میں بہت کم لوگ دیکھنے کو ملتے ہیں حالانکہ کسی دور میں بیت المقدس کے بازاروں میں اس قدر رونق ہوا کرتی تھی کہ ماہ صیام کے دنوں میں تل دھرنے کو جگہ نہ ہوتی تھی اوراب بازاروں میں ہو کا عالم ہوتا ہے۔
ایک مقامی فلسطینی نے بتایا کہ بیت المقدس کے بازاروں میں معمولی معمولی اشیاء پربھی چھ چھ اقسام کے ٹیکس عاید کیے جاتے ہیں۔ جو چیز کسی مارکیٹ میں ایک شیکل کی ہونی چاہیے وہ دس اور پندرہ شیکل میں دستیاب ہوتی ہے۔
مقامی شہری الحاج ودیع الحلوانی نے بتایا کہ بیت المقدس کے شہریوں کو معاشی طور پردیوالیہ کرنا اسرائیل کی ایک منظم اور طے شدہ حکمت عملی کا حصہ ہے۔ صہیونی حکومت جان بوجھ کر فلسطینیوں پر ٹیکسوں کے بھاری بوجھ لاد کرانہیں وہاں سے نکل جانے پر مجبور کررہی ہے۔
ایک مقامی خاتون نے بتایا کہ بیت المقدس میں فلسطینیوں پرمعاشی زندگی تنگ کرنے کی ایک وجہ مقامی بازاروں میں اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ بھی ہے۔ اسرائیل چاہتا ہے کہ عرب کالونیوں کے بازاروں میں بھی اسرائیلی مصنوعات فروخت کی جائیں مگر عرب تاجر صہیونی مصنوعات کے بجائے اردن اور فلسطینی مصنوعات کو ترجیح دیتے ہیں۔ اسرائیل کو اس بات کا بھی غصہ ہے کہ فلسطینی دکاندار اسرائیلی مصنوعات کیوں بیچ رہے ہیں۔
بشکریہ:مرکزاطلاعات فلسطین