مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق فلسطینی ماہر اقتصادیات حامد جاد نے ایک عربی اخبار کو دیے گئے انٹرویو میں کہا کہ جب لوگ یہ سوال پوچھتے ہیں کہ آیا خلیجی ریاست قطرسے غزہ کی پٹی میں ایندھن کی سپلائی میں دیر کیوں ہوتی ہے تو اس کا سادہ جواب ہے "کرپشن”۔ کیونکہ یہ ایک ایسا ناسور ہے جس نے فلسطینی اتھارٹی کو سرتاپا ڈبو درکھا ہے اور ۔
انہوں نے بتایا کہ قطر سے آنے والا ایندھن اردن کے راستے غرب اردن پہنچتا ہے۔ وہاںسے العوجا گذرگاہ سے ہو کر غزہ کی پٹی اور مغربی کنارے کے درمیان کرم ابو سالم تک آتا ہے۔ یوں غزہ کی پٹی کے لیے آنے والے غیرملکی ایندھن سے فلسطینی انتظامیہ قدم قدم پر مٹھی گرم کرنے کی کوشش کرتی ہے۔
خیال رہے کہ قطر سے غزہ کی پٹی میں بجلی گھروں کو چلانے کے لیے ایندھن کی فراہمی کا سلسلہ تو جاری ہے مگر یہ ایندھن کبھی اردن اور کبھی مصر کے راستے غزہ پہنچتا ہے۔ حال ہی میں مصری حکومت نے اپنے ہاں روکے گئے ایندھن کو غزہ کی پٹی میں پہنچانے کا یقین دلایا ہے مگراس حوالے سے ابھی کچھ تاخیر مزید کی جا رہی ہے اور اس کی وجہ بھی معلوم نہیں ہوسکی ہے۔ تاہم غرب اردن کی طرف سے ایندھن کی غزہ کو سپلائی کے پیچھے کرپشن کا ناسور کار فرما ہے۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے نامہ نگاروں کا کہنا ہے کہ ایک سابق اسرائیلی فوجی افسر جو غزہ اور مغربی کنارے کے درمیان رابطہ گذرگاہ پرتعینات تھا نے بتایا کہ ہم گذرگاہوں سے دونوں اطراف میں چلنے والی ٹریفک سے طے شدہ ٹیکسوں کے علاوہ بھی رقوم حاصل کرتے ہیں۔
بشکریہ:مرکزاطلاعات فلسطین