فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ محمود عباس کی جانب سے اسرائیل کے سامنے قومی مطالبات میں پسپائی پر عوامی اور سیاسی حلقوں کی
جانب سے سخت تنقید کی جا رہی ہے۔
فلسطینی سیاسی امور کے ماہر تجزیہ نگار ھانی المصری کا کہنا ہے کہ محمود عباس نے کئی اہم اصولوں سے انحراف کیا ہے، لیکن اس کے باوجود اسرائیل کی بے اعتنائی برقرار ہے۔
مرکز اطلاعات فلسطین کے مطابق ھانی المصری نے ایک ٹی وی پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وسط جون کو تین یہودی آباد کاروں کی پراسرار گم شدگی کے بعد محمود عباس نے اسرائیل کے سامنے غیر معمولی لچک کا مظاہرہ کرتے ہوئے کئی اہم مطالبات پر پسپائی اختیار کی ہے، جس کا کوئی جواز نہیں۔ تمام تر پسپائی کے باوجود اسرائیل کی جانب سے کوئی توجہ نہیں دی جا رہی ہے۔
المصری کا کہنا تھا کہ ہماری قیادت اسرائیلی دباؤ کے سامنے لچک اور پسپائی میں بہت آگے نکل گئی ہے۔ امن بھیک مانگے سے نہیں ملے گا لیکن محمود عباس اور ان کے مقربین اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاھو کے سامنے بچھے جا رہے ہیں۔ انہوں نے جدہ میں اسلامی تعاون تنظیم کے فورم سے بھی فلسطینیوں کا مقدمہ لڑنے کے بجائے اسرائیلی وزیر اعظم کی تعریف و توصیف میں زیادہ وقت صرف کیا۔ اس سے اندازہ ہو رہا ہے کہ فلسطینی اتھارٹی احساس کم تری کا شکار ہے اور وہ تین یہودی آباد کاروں کی گم شدگی کے بعد اسرائیل کے دباؤ کا شکار ہوگئی ہے۔
ایک سوال کے جواب میں ھانی المصری کا کہنا تھا کہ تین یہودیوں کی گم شدگی کے بعد مغربی کنارے میں اسرائیلی فوج کے وحشیانہ کریک ڈاؤن میں فلسطینی اتھارٹی کا کوئی وجود ہی نہیں دکھائی دیا۔ فلسطینی اتھارٹی جرات اور ہمت کا مظاہرہ کرتی تو اسرائیلی فوج اس دیدہ دلیری کے ساتھ سیکڑوں نہتے فلسطینیوں کو گرفتار کر کے جیلوں میں نہ ڈالتی۔ فلسطینی اتھارٹی کے ذمہ دار سیکیورٹی ادارے اگر کہیں دکھائی دیے ہیں تو وہ صرف اسرائیلی فوجی کارروائیوں میں معاون کے طور پر ہی کردار ادا کرتے رہے ہیں۔
بشکریہ:مرکزاطلاعات فلسطین