رپورٹ کے مطابق امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے شہرہ آفاق تصنیف ‘احیاء العلوم‘ کا ایک بڑا حصہ اسی چبوترے میں بیٹھ کر قلم بند کیا تھا۔
اسرائیلی قبضے سے قبل باب الرحمۃ فلسطینی طلباء کے لیے بھی ایک مرکز رہا جہاں حفظ قرآن کریم اورناظرہ قرآن کی تدریس کے ساتھ ساتھ باقاعدگی کے ساتھ دروس ہائے قرآن کی کلاسز کا بھی اہتمام کیا جاتا تھا۔
مگر اب اس دروازے سے متصل دونوں بڑے ہال ویران بلکہ کیڑوں مکوڑوں کی آماج گاہ بن چکے ہیں۔ یہاں صرف یہودیوں کو داخل ہونے اور تلمودی تعلیمات کے مطابق مذہبی رسومات کی ادائیگی کی اجازت دی جاتی ہے۔
گئے وقتوں میں یہ جگہ قبلہ اوّل کی سب سے آباد اور بارونق سمجھی جاتی تھی اور آج یہ فرزندان توحید کی قدم بوسی کو ترستی ہے۔