اسرائیلی دستور ساز وزراء کمیٹی نے ایک انسداد دہشت گردی بل کی منظوری دیدی ہے۔ یہ قانون 1945 سے رائج ”ایمرجنسی لاء”کے متبادل کے طور پر لایا گیا ہے جسے وزیر انصاف ”ٹسیبی لیوینی” نے پیش کیا تھا۔
اس قانون کی منظوری کے بعد اسرائیل کی دہشت گردی سے نمٹنے اور سکیورٹی کے حوالے سے تحقیقات کی صلاحیتوں میں بے پناہ اضافہ ہوجائے گا۔
نئے ”انسداد دہشت گردی قانون” میں دہشت گردی کے جرم کے لیے نئی ترتیبات اور اقدامات اٹھائے گئے ہیں۔ اس میں ”دہشت گردی کا عمل” اور ”دہشت گرد تنظیم” کی تعریفوں میں بھی ردوبدل کیا گیا ہے۔ اس مسودہ قانون میں کہا گیا ہے کہ ضروری نہیں کہ دہشت گردی صرف جسمانی یا نفسیاتی پرتشدد اقدامات ہی نہیں بلکہ اس میں ملک کی سکیورٹی کے لیے خطرہ بننے والے عدم تشدد پر مشتمل اقدامات بھی شامل ہیں۔
اس قانون کے مطابق جو کوئی بھی کسی دہشت گرد تنظیم کی حمایت اور تعریف کرے گا یا اس تنظیم کا جھنڈا لہرائے گا اس کو بھی تین سال تک قید با مشقت کی سزا دی جا سکے گی۔۔ اسی طرح دہشت گرد تنظیم کو رقوم کی فراہمی یا اس کی مالی امداد کرنا بھی بھی ناقابل سمجھوتہ سکیورٹی کی مخالفت تصور ہوگا۔
اس قانون کے بموجت عدالت کو تیس کے بجائے چالیس سال قید کی سزا دینے کا اختیار دیدیا گیا ہے۔ اسی طرح کہا گیا جج کو درخواست دیے بغیر کسی بھی مشکوک فرد سے تفتیش و تحقیق کی مدت بھی بڑھا کر 96 گھنٹے کردی گئی ہے۔ اس قانون نے مشتبہ شخص کو 30 دن تک وکیل سے ملوائے بغیر بھی تحقیق و تعذیب کے عمل سے گزارنے کی بھی اجازت دیدی ہے۔
”انسداد دہشت گردی” کے اس نئے قانون میں ایک خطرناک شق یہ رکھی گئی ہے کہ سکیورٹی فورسز کسی بھی شخص کی گواہی، گواہ کو عدالت میں حاضر کیے بغیر ہی جج کو پیش کرسکیں گے، اس طرح گواہ سے کاؤنٹر تفتیش کیے بغیر اسے پورا تحفظ فراہم کیا جائے گا۔
یاد رہے کہ نیا مسودہ قانون اسرائیلی حکومت کے سابق اٹارنی جنرل منی مزور، خفیہ ایجنسی شاباک کے امن عامہ کے عہدیداروں، وزارت امن، نیشنل سکیورٹی کونسل، صہیونی حکام اور وزارت خارجہ کے عہدیداروں کی مشاورت سے تیار کیا گیا تھا۔ سابق حکومت کے وزراء کی دستوری کمیٹی نے اس کی منظوری دیدی ہے اور یہ ابتدائی مطالعے کے لیے پارلیمنٹ میں پیش بھی کیا جا چکا ہے۔
دوسری جانب سن 48ء کے مقبوضہ فلسطین میں ”میزان برائے انسانی حقوق” نام سے سرگرم فاؤنڈیشن کا کہنا ہے کہ نیا ”انسداد دہشت گردی” قانون بڑے پیمانے پر انسانی حقوق اور آزادی کی خلاف ورزی کا مرتکب ہو رہا ہے۔ بالخصوص انتظامی حراست میں رکھنے کی شقیں انسانیت کے منافی ہیں۔
فاؤنڈیشن نے پیر کے روز جاری اپنے بیان میں کہا کہ دہشت گردی کے خاتمے اور شہریوں کو سکیورٹی فراہم کرنے کے نام پر انسانی حقوق کی دھجیاں اڑائی گئی ہیں۔ انتظامی حراست کی اجازت، بنیادی آزدی، نقل و حرکت اور خیراتی ادارے چلانے کی آزادی کو پابند کیا گیا ہے۔ اسی طرح زکواۃ و صدقات اور تعلیم و تربیت اور خوراک کی فراہمی کے شعبوں میں کام کرنے والے اداروں کو دہشت گرد تنظیموں کی صف میں لاکھڑا کیا گیا ہے۔
بشکریہ:مرکز اطلاعات فلسطین