اسرائیلی حکومت نے مقبوضہ بیت المقدس میں فلسطینی نظام تعلیم کے خلاف منظم اور مکروہ سازشیں شروع کی ہیں، دوسری جانب بیت المقدس کی سیاسی، مذہبی اور سماجی شخصیات نے صہیونی سازشوں کو ناکام بنانے کےعزم کا اظہارکیا ہے۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق اسرائیلی حکومت کی جانب سے بیت المقدس میں عبرانی نظام تعلیم نافذ کرنے کی سازشیں جاری ہیں۔ بیت المقدس کی سرکردہ شخصیات نے صہیونی حکومت کی سازشوں کو ناکام بنانے کی مساعی شروع کی ہیں۔ اس سلسلے میں بیت المقدس میں ’’نظام تعلیم ماضی، حال ۔۔۔ اور نظام کو یہودیانے کی سازش‘‘ کےعنوان سے ایک کانفرنس کا اہتمام کیا گیا۔ کانفرنس میں مسجد اقصیٰ کے امام وخطیب ڈاکٹر عکرمہ صبری، بیت المقدس سے منتخب رکن اسمبلی عبداللہ صیام، ڈاکٹرجمال عمرو اور سیاسی و سماجی کارکن راسم عبیدات سمیت درجنوں اہم شخصیات نے شرکت کی۔
اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے الشیخ عکرمہ صبری کا کہنا تھا کہ بیت المقدس میں اسرائیلی نظام تعلیم مسلط کرنے کی سازشوں کے پس پردہ سازشوں کو کامیاب بنانے میں بیت المقدس کے بعض فلسطینی بھی ملوث ہیں جو اپنے بچوں کو فلسطینی نظام تعلیم کے بجائے اسرائیلی اسکولوں میں داخل کراتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اگر بعض فلسطینی بچوں کے والدین صہیونی نظام تعلیم کو قبول نہ کریں تو اسرائیل اپنی مرضی کا نظام اور نصاب تعلیم مسلط نہیں کرسکتا ہے۔ الشیخ عکرمہ صبری کا کہنا تھا کہ بیت المقدس میں ’’البجروت‘‘ نظام تعلیم مثالی نظام اور نصاب ہے۔ تاہم اس کے لیے ہمیں بچوں سے پہلے ان کےوالدین کو مخاطب کرتے ہوئے ان کی سوچ میں تبدیلی لانا ہوگی۔
الشیخ عکرمہ نے بتایا کہ سنہ 2011 ء کے تعلیمی سال کے دوران اسرائیل نے بیت المقدس میں حقائق کو غلط انداز میں پیش کرنے کے لیے تحریف شدہ نصاب تعلیم نافذ کیا۔ ابتدائی طورپر یہ نصاب تعلیم بیت المقدس کے 40 پرائیویٹ اسکولوں میں نافذ کیا تھا تاہم بعد ازاں اسے بیت المقدس کے طول وعرض میں پھیلانے کی کوشش کی گئی۔
الشیخ عکرمہ صبری کا کہنا تھا کہ ہمارے اس اجلاس کا مقصد بیت المقدس میں اسرائیل کے مسلط کردہ نظام ونصاب تعلیم کے خلاف متفقہ لائحہ عمل تیار کرنا ہے۔ ہمیں گھر گھرجا کر فلسطینی شہریوں کو یہ بتایا ہوگا کہ وہ اپنے بچوں کو فلسیطن کی غلط تاریخ کے بجائے حقائق سے روشناس کرائیں اور اسرائیل کے تحریف شدہ نصاب تعلیم کا بائیکاٹ کریں۔
بشکریہ:مرکزاطلاعات فلسطین