فلسطینی صدر محمود عباس کی جانب سے اسرائیل کے ساتھ امریکا کی نگرانی میں نام نہاد امن مذاکرات کی عوامی اور سیاسی سطح پر سخت مخالفت جاری ہے۔
فلسطینی قومی اقدام پارٹی’ کے جنرل سیکرٹری اور مجلس قانون ساز کے رکن مصطفیٰ برغوثی نے کہا ہے کہ فلسطین کے تمام مقبوضہ علاقوں میں اسرائیل کی توسیع پسندانہ سرگرمیوں میں فلسطینی اتھارٹی برابر کی شریک ہے، کیونکہ رام اللہ انتظامیہ نے نام نہاد امن مذاکرات شروع کر کے شہروں میں یہودی بستیوں کی تعمیر اور صہیونی ریاستی دہشت گردی سے توجہ ہٹا دی ہے۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق مصطفیٰ برغوثی نے ان خیالات کا اظہار جمعہ کے روز برطانیہ سے آئے ایک وفد سے ملاقات میں کیا۔ انہوں نے بتایا کہ جب جب بھی فلسطینی اتھارٹی نے اسرائیل سے امن سمجھوتے کیے ہیں۔ فلسطین میں یہودی مداخلت میں اضافہ ہی ہوا ہے۔ سنہ 1994ء میں اسرائیل کے ساتھ طے پائے اوسلو معاہدے سے قبل مقبوضہ مغربی کنارے میں یہودی آباد کاروں کی تعداد محض ڈیڑھ لاکھ تھی لیکن اب یہ بڑھ کر 05 لاکھ 60 ہزار سے تجاوز کر چکی ہے۔
مصطفیٰ البرغوثی کا کہنا تھا کہ صہیونی دشمن مذاکرات کی آڑ میں فلسطین میں اپنے پنجے گاڑھنے کے لیے وقت حاصل کرنا چاہتا ہے اور فلسطینی اتھارٹی یہ سمجھ رہی ہے کہ وہ قوم کے حقوق کے لیے تل ابیب سے مذاکرات کر رہی ہے۔
سرکردہ فلسطینی سیاست دان نے صدر محمود عباس اور ان کی جماعت کی جانب سے قومی مفاہمت کو سبوتاژ کرنے پرسخت تنقید کا نشانہ بنایا۔ انہوں نے کہا کہ محمود عباس اور ان کے نورتنوں نو صہیونی دشمن سے مذاکرات کی فکر لاحق ہے حالانکہ موجودہ حالات میں فلسطینی دھڑوں کے درمیان مفاہمت پر زور دیا جانا چاہیے۔
مرکزاطلاعات فلسطین