فلسطین کےمقبوضہ بیت المقدس کی اہم شخصیات اور مذہبی و سیاسی رہ نماؤں نے شہر میں صہیونی شہری حکومت کے ماتحت اسکولوں میں اسرائیل کا تیار کردہ نصاب تعلیم مسترد کر دیا ہے۔
مرکز اطلاعات فلسطین کے مطابق مقبوضہ بیت المقدس میں فلسطینیوں کی نمائندہ شخصیات نے ایک نیوز کانفرنس میں واضح کیا کہ نصاب تعلیم کسی بھی قوم اور معاشرے کی تاریخ، تہذیب و تمدن اور مذہبی روایات کا آئینہ دارہوتا ہے۔ اسرائیلی حکام کی جانب سے جو نصاب وضع کیا گیا ہے وہ فلسطینیوں اور مسلمانوں کے بچوں کے لیے کسی صورت میں بھی مناسب نہیں ہے۔ ہماری اپنی تاریخ، روایات، کلچر اور آزاد وطن کے لیے طویل جدوجہد ہے۔ ہم نئی نسل کو گمراہ نہیں کرسکتے۔ ہم نے جو کچھ آج تک اپنے بڑوں سے سیکھا ہے وہی ہم اپنی نئی نسلوں کو بھی فراہم کریں گے۔ ہم بچوں کے نوخیز ذہنوں میں صہیونیت کو مسلط نہیں ہونے دیں گے۔
بیت المقدس میں علماء کی سپریم کونسل کے چیئرمین الشیخ عکرمہ صبری نے فلسطینی عوام سے اپیل کی کہ وہ صہیونی ضلعی حکومت کی جانب سے تیار کردہ نصاب تعلیم اپنے بچوں کو نہ پڑھائیں۔ انہوں نے کہا کہ اب وقت آگیاہے کہ فلسطینی عوام سنہ عرب اسرائیل جنگ سنہ 1967ء کے بعد والی تمام صہیونی پوزیشنوں کو مسترد کر دیں۔
اسرائیلی حکومت نے اس جنگ کے بعد نہ صرف فلسطینیوں کی املاک اور اراضی پر قبضہ کرنے کی سازشیں جاری رکھی ہوئی ہیں بلکہ انتہائی ڈھٹائی کے ساتھ فلسطینی نئی نسل کے ذہن بگاڑنے کی بھی سنگین سازشیں کی جا رہی ہیں۔ فلسطینی عوام ایسی کسی بھی سازش کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔
نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مقبوضہ بیت المقدس میں نصاب تعلیم کمیٹی کے چیئرمین سمیر جبریل نے بھی اسکولوں میں صہیونی نصاب تعلیم پڑھانے کو ایک سازش قراردے کر مسترد کر دیا۔ انہوں نے کہا کہ فلسطینی والدین کے لیے یہ کوئی خوشی کی بات نہیں کہ ان کے بچے صہیونی اسکولوں میں پڑھیں اوریہودی اپنی مرضی سے ان کے ذہن خراب کرنے کی سازشیں کرتے رہیں۔
خیال رہے کہ حال ہی میں معلوم ہوا تھا کہ مقبوضہ بیت المقدس کے بعض اسکولوں میں اسرائیل کا تیار کردہ نصاب تعلیم پڑھا یا جا رہا ہے۔ اسرائیلی شہری حکومت کے زیرانتظام اسکولوں میں زیادہ تر یہودیوں کے بچے زیر تعلیم ہیں لیکن کچھ فلسطینیوں کے بچوں کے داخلے کی خبریں بھی ملی ہیں۔ اسی طرح فلسطینیوں کے بعض نجی طورپر چلائے جانے والے اسکولوں میں بھی صہیونی حکومت کا تیار کردہ نصاب تعلیم پڑھانے کی اطلاعات ملی تھیں،۔ جس کے بعد فلسطین بھر میں تشویش کی لہر دوڑ گئی تھی۔
بشکریہ:مرکزاطلاعات فلسطین