مرکز اطلاعات فلسطین کے مطابق فلسطینی تجزیہ نگار ڈاکٹر سامی خاطر نے بیت المقدس میں ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مشرقی بیت المقدس میں پچھلے کچھ عرصے کے دوران جہاں ایک طرف یہودی آباد کاروں کی تعداد میں غیرمعمولی اضافہ ہوا ہے وہیں دوسری جانب شہر کے فلسطینی باشندوں کی جانب سے یہودیوں کی توسیع پسندی کے خلاف کسی قسم کی مزاحمت بھی نہیں کی گئی ہے جو زیادہ تشویشناک امر ہے۔
ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر خاطر کا کہنا تھا کہ مشرقی بیت المقدس میں سنہ 1967ء کی جنگ سے قبل یہودیوں کی تعداد مسلمانوں کے مقابلے میں صفر تھی۔ اس کے بعد یہودیوں کی تعداد میں 100 فی صد اضافہ ہوا جس کے بعد اب مشرقی بیت المقدس میں یہودیوً اور فلسطینیوں کی تعداد برابر ہوچکی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ مشرقی بیت المقدس میں یہودی آباد کاروں کے قیام کے ساتھ ساتھ فلسطینی شہریوں کی املاک پر بھی خوب ہاتھ صاف کیے جا رہے ہیں۔ یہودی توسیع پسندی کی وجہ سے بیت المقدس کی 89 فی صد اراضی فلسطینیوں سے چھین لی گئی ہے۔ان کے پاس صرف11 فی صد اراضی بچی ہے اور وہ بھی آہستہ آہستہ ان سے چھینی جا رہی ہے۔
ڈاکٹر سامی خاطر کا کہنا تھا کہ عرب اور مسلمان ممالک کی جانب سے بیت المقدس میں یہودیت کے فروغ کی روک تھام کے لیے کوئی موثر حکمت عملی وضع نہیں کی گئی ہے جس کے نتیجے میں اسرائیل نہایت تیزی کے ساتھ یہودی آباد کاروں کی تعداد میں مسلسل اضافہ کررہا ہے۔
بشکریہ:مرکزاطلاعات فلسطین