اسرائیلی کی سفاک حکومت اور انتہا پسند یہودی آباد کاروں نے فوج اور پولیس کے ساتھ مل کر فلسطین کے تاریخی شہر مقبوضہ بیت المقدس میں مقیم ہزاروں فلسطینی باشندوں کی زندگی کو جہنم بنا رکھا ہے۔
صہیونی مظالم کے نتیجے میں فلسطینیوں کا جینا بھی محال اور وہاں سے ھجرت بھی کسی عذاب سے کم نہیں ہے۔
اسرائیلی حکومت نے فلسطینی شہریوں اور یہودی آبادکاروں کےحوالےسے دو الگ الگ اور متوازی پالیسیاں مرتب کر رکھی ہیں۔ یہودیوں کو ہر قسم کے روزگار کے مواقع میسر ہیں۔ فلسطینی بے روزگاری کے سنگین مسائل کا سامنا کر رہے ہیں۔ یہودی آبادکاروں کو ہر قسم کی معاشی سہولت میسر ہے اور انہیں بازاروں میں ہر چیز انتہائی کم قیمت پر مل جاتی ہے جبکہ فلسطینی شہری بھاری قیمت ادا کرنے کے بعد بھی بنیادی ضرورت کی اشیاء حاصل کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔ یوں گونا گوں پریشیانیوں اور مسائل نے بیت المقدس کے باشندوں کی زندگی عذاب بنا رکھی ہے۔ یہودی آباد کاری، شہریوں کی جبری بے دخلی، ان کے مکانات کی مسماری اور بلا جواز گرفتاریوں اور کریک ڈاؤن کی مصیبت اس کے سوا ہے۔
بیت المقدس کے اندر موجود فلسطینی ان مصائب و آلام سے تنگ آکر دوسرے شہروں میں تلاش معاش کے لیے نکلنے کی کوشش کرتے ہیں تو یہ نقل مکانی بھی ان کے لیے کسی قیمت سے کم نہیں۔ ذرائع معاش کی تلاش ان کی مجبوری ہے لیکن فلسطین کے جس شہرمیں بھی وہ جاتے ہیں یا جانے کی کوشش کرتے ہیں تو انہیں اسرائیل کے اسی نسلی امتیاز کا وہاں بھی سامنا کرنا پڑتا جس کا مظاہرہ بیت المقدس میں ان کی روز مرہ زندگی میں جاری و ساری ہے۔
گھربار سے محروم کرنے کے صہیونی حربے
مقبوضہ بیت المقدس میں مقیم فلسطینیوں کی زندگی کئی حوالوں سے ہمہ نوع عذاب اور مسائل میں گھری ہوئی ہے۔ ان بے شمار مصائب میں ایک بڑی مصیبت فلسطینیوں کے مکانات مسماری اوران کی جبری بے دخلی کی صورت میں فلسطینیوں پر مسلط ہے۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق 65 سالہ بیت المقدس کے ایک مکین الحاج عدنان الشرباتی نے بتایا کہ ان کے والد نے چالیس سال قبل ایک مکان کرائے پر لیا تھا۔ مالک مکان خود بیت المقدس چھوڑ کر باہر چلے گئے۔ اسرائیلی حکومت نےان کے زیر استعمال مکان کو "املاک متروکہ” میں شامل کیا تاکہ ان کے خاندان کو مکان سے محروم رکھنے کی سازش کی جاسکے۔ سنہ 1967 ء کی جنگ کے بعد ان کے زیراستعمال مکان کو "یہودی ایجنسی” کے حوالے کر دیا گیا۔ تاہم یہودی ایجنسی نے ان کے خاندان کے بیت المقدس کے مقیمی ہونے کی بناء پرمکان خالی تو نہ کرایا لیکن مختلف حیلوں بہانوں سے انہیں پریشان کرنے کا سلسلہ شروع کردیا گیا۔
الحاج الشرباتی نے کہا کہ سال ہا سال سے اس مکان میں رہنے کے باعث طاقت کے ذریعے مکان ان سے نہیں چھینا گیا لیکن اسرائیلی حکومت مسلسل ایسے قوانین وضع کرتی رہی جن کے ذریعے بیت المقدس کے اصلی باشندوں کو وہاں سے نکال باہر کرنا تھا۔
عدنان الشرباتی نے بتایا کہ جب سے اسرائیل نے بیت المقدس پرغاصبانہ تسلط جمایا ہے اس وقت سے ہم لوگ آئے روز کسی نئے مقدمے اور کسی نئی عدالت کا سامنا کررہے ہوتے ہیں۔
انہوں نے کہاکہ قابض اسرائیل ہمیں شہر بدرکرنے کے لیے تمام تروسائل بروئے کار لا رہا ہے۔ ہمارے خلاف باقاعدہ ریاستی قوانین کو استعمال کیا جاتا ہے۔ یہودی آباد کاروں کے ذریعے حملے کرائے جاتے ہیں اور کبھی بھاری لالچ کے ذریعے ہمیں اپنی رہائش قدیم بیت المقدس سے باہر منتقل کرنے کی پیشکش کی جاتی ہے۔ یہ تمام وہ ہتھکنڈے ہیں جنہیں فلسطینیوں کے خلاف استعمال کیا جا رہا ہے۔
فلسطینی اتھارٹی کی طفل تسلیاں
الحاج عدنان الشرباتی نے بیت المقدس کے شہریوں کی مشکلات کے حل میں فلسطینی اتھارٹی کی جانب سے میڈیا کے کیمروں کے سامنے بلند بانگ دعوے کیے جاتے رہے ہیں لیکن ان میں سے ایک فی صد بھی ان پرعمل درآمد نہیں کیا گیا ہے۔
الحاج عدنا نے بتایا کہ فلسطینی اتھارٹی کے مندوبین اپنے وفود کے ہمراہ بیت المقدس کا دورہ کرتے رہتے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل فلسطینی اتھارٹی کے عہدیداروں نے بیت المقدس کے دورے کے دوران مقامی شہریوں کو یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ صہیونی حکومت کی طرف سے ان کے خلاف دائر مقدمات میں وکلاء اور ان کے اخراجات، اسرائیل کی جانب سے عائد جرمانوں کی ادائیگی، بیت المقدس کی تعمیر و ترقی میں مدد فراہم کرنے اور فلسطینیوں کی معاشی مشکلات دور کرنے میں ان کی مدد کی باربار یقین دہانی کرائی جاتی رہی ہے لیکن عملا ان تمام وعدوں میں سے کوئی ایک بھی پورا نہیں ہوسکا ہے۔ فلسطینی اتھارٹی کی اس دوغلی پالیسی سے ایسے لگ رہا ہے کہ بیت المقدس رام اللہ کی ترجیحات میں شامل ہی نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ بعض فلسطینی شہریوں کو مکان تعمیر کرنے پر لاکھوں شیکل جرمانہ کیا جاتا۔ فلسطینی خود سے وہ بھاری جرمانے ادا کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے اور فلسطینی اتھارٹی بھی ان کی مدد نہیں کرتی۔ اس کے نتیجے میں فلسطینیوں کو اپنے گھراور زمین ہرچیز سے محروم کردیا جاتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ بعض اوقات یہ جرمانے 70 ہزار شیکل تک ہوتے ہیں۔
عدنان کا کہنا تھا کہ ان کے اہل خانہ کو اسرائیلی حکومت کی طرف سے سخت دباؤ کا سامنا رہتا ہے کہ ہم مکان خالی کردیں لیکن ہم ابھی تک ڈٹے ہوئے ہیں۔ اب ہمارے اس مکان میں موجود افراد کی تعداد ایک سو سے تجاوز کرچکی ہے جن میں اکثریت بچوں کی ہے۔ اگر ہمیں اس مکان سے محروم کیا جاتا ہے تو ہمارے پاس کوئی متبادل جگہ نہیں ہو گی۔
بیت المقدس کے قرب و جوار میں رہائش کی تلاش
مرکزاطلاعات فلسطین کی رپورٹ کے مطابق بیت المقدس میں زندگی تنگ کیے جانے کے بعد فلسطینی شہر کے مضافات میں متبادل مکانات کی تعمیر پر مجبور ہو رہے ہیں۔ بیت المقدس میں مکان کی تعمیر تو دور کی بات صرف اس کی تعمیر کے لیے اجازت حاصل کرنے پر بعض اوقات تین سے چار لاکھ شیکل کی رقم صرف ہوجاتی ہے۔ مکان بنانے کے لیے سخت ترین شرائط کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان شرائط پرپورا اترنے میں ناکامی اور پرمٹ کی قیمتوں فیسوں میں غیرمعمولی اضافے کے نتیجے میں القدس کے باشندے مضافاتی اور نسبتا سستے علاقوں میں مکانات کی تعمیر پرمجبور ہو رہے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق اسرائیلی حکومت کی طرف سے بیت المقدس کے باہر رہائش منتقل کرنے والے القدس کے باشندوں کو کم قیمت پر مکانات اور اراضی کی فراہمی کا بھی لالچ دیا جاتا ہے۔ ساتھ ہی ان سے کہا جاتا ہے کہ وہ رہائش شہرسے باہر لے جائیں لیکن ان پر بیت المقدس کےدروازے بند نہیں کیے جائیں گے۔وہ جب چاہیں تو بیت المقدس میں آسکتے ہیں لیکن دراصل یہ فلسطینیوں کو شہر سے بے دخل کرنے کا ایک بہانہ ہے۔
رپورٹ کے مطابق بیت المقدس کے مقابلے میں اس کے مضافاتی علاقوں بالخصوص مغربی کنارے کے دور دراز علاقوں میں نسبتا کم قیمت پر اراضی دستیاب ہے لیکن ایسے علاقوں میں بنیادی شہری سہولتوں کا فقدان ہے۔ مقامی شہریوں کا کہنا ہے کہ بنیادی سہولیات کی عدم فراہمی کے باوجود بیت المقدس کے قرب و جوار کے علاقوں میں پچھلے تین سال کے دوران زمین کی قیمتوں میں 70 فی صد اضافہ ہوا ہے۔ بیت المقدس اور بیت لحم کے درمیان دارصلاح قصبے میں پچھلے تین سال میں بیت المقدس کے 300 خاندانوں نے کم سےکم 1000 ایکڑ اراضی خرید کر لی ہے۔ جس کے باعث اراضی کی قیمتوں میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔
بشکریہ:مرکزاطلاعات فلسطین