انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ اسرائیل ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت اسمارٹ مقناطیسی کارڈز کی آڑ میں بیت المقدس کے باشندوں کو شہری، سماجی، سیاسی اور بنیادی حقوق سے محروم کرنے کی مہم شروع کررکھی ہے۔
بیت المقدس میں فلسطینیوں کے سماجی اور اقتصادی حقوق کے سرگرم ادارے کے سربراہ "زیاد الحموری” نے مرکزاطلاعات فلسطین سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ میگنیٹک حیاتیاتی کارڈز کے اجراء کا مقصد بیت المقدس کے ایک لاکھ 50 ہزار سے زائد باشندوں کو القدس سے محروم کرنا اور انہیں فلسطین کے دوسرے علاقوں کی طرف ھجرت پر مجبور کرنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ صہیونی حکومت نے بیت المقدس کے ترقیاتی پروگرام برائے 2020 اور 2030ء کے دوران صہیونی حکومت بیت المقدس میں فلسطینی شہریوں کی تعداد 35 فی صد سے کم کر کے 12 فی صد تک لانا چاہتی ہے۔
ایک سوال کے جواب میں فلسطینی دانشور کا کہنا تھا کہ اسرائیلی حکومت نے ایک جانب یہ اسمارٹ میگنیٹک کارڈز تمام فلسطینی شہریوں کے لیے لازمی قرار دیے ہیں اور دوسری جانب صہیونی وزارت داخلہ بیت المقدس کے شہریوں کو اپنے ہاں رسائی کا سرے سے موقع ہی فراہم نہیں کرتی جسکے نتیجے میں فلسطینیوں کا مستقبل خطرے میں پڑ چکا ہے۔ جن شہریوں نے صہیونی حکومت کی طرف سے جاری کردہ اسمارٹ کارڈز حاصل بھی کیے ہیں۔ اب وہ اپنی مقررہ مدت پوری کر چکے ہیں اور صہیونی حکومت ان کی تجدید نہیں کررہی ہے۔
فلسطینی سماجی رہ نما الحموری نے کہا کہ جن شہریوں کے پاس صہیونی حکومت کے منظور کردہ اسمارٹ کارڈز نہیں انہیں ملکیت کے حق سے محروم کر دیا جاتا ہے۔ ایسے شہری دیوار فاصل کے اندرونی علاقوں میں کوئی جائیداد خرید سکتے ہیں اور نہ ہی کرائےپر لے سکتے ہیں۔
انہیں ٹیکس ادا کرنے کی اجازت بھی نہیں اور نہ ہی کارڈز کے بغیر رہنے والے شہری بجلی، گیس اور پانی حاصل کر سکتے ہیں حتیٰ کہ ان کے بچوں کر سات سال تک تاریخ پیدائش کے سرٹیفکیٹ بھی نہیں دیے جا سکتے۔
شہری ان دیکھے خوف کا شکار
فلسطینی تجزیہ نگار احمد الحموری نے مرکز اطلاعات فلسطین سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اسمارٹ کارڈز فلسطینی شہریوں کو بیت المقدس میں داخل ہونے اور انہیں وہاں پر اقدامات اختیار کرنے سے روکنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ صہیونی وزارت داخلہ بیت المقدس میں یہودیانے میں پیش پیش ہے اور چن چن کر بیت المقدس کے اصلی اور حقیقی باشندوں کو وہاں سے نکال باہر کیا جا رہا ہے۔
فلسطینی سماجی کارکن نے کہا کہ شروع میں صہیونی وزارت داخلہ نے فلسطینی عرب شہریوں کے لیے اسمارٹ کارڈز کو ان کی مرضی پر چھوڑ دیا تھا۔ بعد ازاں ان کارڈز کو لازمی قرار دیا گیا ہے۔ بعد ازاں صہیونی حکومت نے بائیولوجیکل کارڈز کا حصول لازمی قراردیا۔ ان کارڈز پر صہیونی حکومت شہریوں کو اپنی مرضی کے نمبر اور ان کی شناخت درج کر کے شہریوں کو یہودی باشندے ثابت کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
ایک دوسرے سوال کے جواب میں الحموری کا کہنا تھا کہ میگنیٹک فلسطینیوں کی جاسوسی کا بھی ایک حربہ ہے۔ جس شخص کے پاس یہ کارڈ ہو گا اس کی کسی بھی جگہ موجودگی کا فوری سراغ لگایا جا سکتا ہے۔ لیکن ایسے کارڈز کے حصول کے لیے یوٹیلی بلوں کا ثبوت فراہم کرنا بھی ضروری ہے۔ ہر کارڈ ہولڈر اسکول کے سرٹیفکیٹ، بجلی کےبلات اور ٹیکسوں کی ادائیگی کی رسیدیں فراہم کرنے کے پابند ہیں۔ جس شہری کے باس ان میں سے کوئی ایک ثبوت بھی نہیں ہے اس کا میگیٹنک کارڈ نہیں بن سکتا ہے۔
نقل وحرکت پر پابندی کی سازش
"اسمارٹ کارڈ” کی اسکیم پر بات کرتے ہوئے کہا کہ اس کارڈ کے ذریعے اسرائیلی حکومت تمام فلسطینیوں کی معلومات کو ایک مقناطیسی آلے کے اندرمحفوظ کرے گا۔ اس میں کارڈ ہولڈر کا مکمل ایڈریس، اس کے رشتہ داروں کی تفصیلات،فنگر پرنٹس اور جسم کی علامات درج کی جائیں گی۔ یوں اس کارڈ کی مدد سے فلسطینیوں کی نقل وحرکت پر بھی نظر رکھی جائے گی۔
انہوں نے کہا کہ اس آلے کے ذریعے ان تمام فلسطینیوں کی ہرقسم کی نقل وحرکت نوٹ کی جائے گی۔ فلسطینیوں کی نقل وحرکت پر نہ صرف بیت المقدس کے اندر نگرانی رکھی جائے گی بلکہ بیرون شہر بھی ان کی سرگرمیوں پرنظر رکھی جا سکے گی۔
الحموری نے انکشاف کیا کہ اسرائیلی حکومت کی اس نئی اسکیم کے نتیجے میں بیت المقدس اور اس کے مضافاتی علاقون سے ایک لاکھ 20 ہزار فلسطینیوں کی نقل مکان اورجبری ھجرت کا خدشہ ہے۔ بعض مبصرین کا خیال ہے کہ صہیونی حکومت کی جانب سے بیت المقدس کے شہریوں کے لیے اسمارٹ کارڈ کی اس اسکیم کا قانونی سطح پر مقابلہ بھی ممکن نہیں۔ کیونکہ ماضی میں بھی اس طرح کی ظالمانہ پالیسیوں کے خلاف کوئی قدم اٹھایا گیا توعدالتوں نے مظلوم فلسطینیوں کے بجائے اسرائیلی حکومت کا ساتھ دیا۔
ایک سوال کے جواب میں فلسطینی تجزیہ نگارکا کہنا تھا کہ اسمارٹ کارڈ کا تجربہ فی الحال محدود اورمخصوص لوگوں کے لیے ہوگا تاہم دو سال کے بعد یہ اسکیم کامیاب رہی توتمام فلسطینیوں کے قومی شناختی کارڈ ختم کرکے ان کی جگہ اسمارٹ کارڈ جاری کر دیے جائیں گے۔
اسمارٹ کارڈ کی سازش کے بارے میں بات کرتے ہوئے ایک دوسرے فلسطینی تجزیہ نگار الشیخ ناجح بکیرات نے کہا کہ اسرائیل مختلف حیلوں بہانوں سے فلسطینیوں کا ناطقہ بند کرنا چاہتا ہے۔ بھاری ٹیکسوں کے بوجھ سے بیت المقدس کے فلسطینی مکینوں کی زندگی اجیرن بنا دی گئی ہے۔ رہائش، تعلیم، صحت جیسے شعبوں پر ٹیکس نافذ کرنے کے بعد اب ٹی وی ٹیکس کے نام سے ایک نیا بوجھ ڈال دیا گیا۔ اس کے ساتھ ہی اب اسمارٹ کارڈ کے نام سے نیا فراڈ فلسطینیوں سے پیسے بٹورنے اور انہیں مزید مشکلات میں ڈالنے کے سوا اور کچھ نہیں۔