القدس انٹرنیشنل سنٹر کے سربراہ ڈاکٹر حسن خاطر کا کہنا ہے کہ مقبوضہ مشرقی القدس میں اسرائیلی فوجی مراکز میں اضافے کا مقصد القدس
کو اپنے رہنماؤں کے لیے مقدس شیلڈ کے طور پر استعمال کرنا ہے۔ القدس کی اسلامی و مسیحی شناخت کو ختم کرکے یہودیانے کی کوشش میں ناکامی کے بعد اسرائیل اب اس بابرکت شہر میں موجود اسلامی و مسیحی مقدس مقامات کو مستقبل میں کسی بھی جنگ کے دوران اپنے رہنماؤں کی تحفظ کے لیے استعمال کرنے کا خواہش مند ہے۔
اسرائیلی پلاننگ اینڈ بلڈنگ کمیٹی کی جانب سے گزشتہ پیر کے روز مشرقی القدس میں ملٹری اکیڈمی کی تعمیر کی منظوری پر رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے حسن خاطر نے کہا کہ مسجد اقصی ککے سامنے جبل زیتون پر 14 ہزار مربع میٹر پر پھیلی اسرائیلی فوجی اکیڈمی کا منصوبہ دراصل اسرائیل کی جانب سے مسلمانوں اور عیسائیوں کے نزدیک اس شہر کے تقدس کو استعمال کرنے کے ماضی کے صہیونی پروگرام کا ہی ایک حصہ ہے۔
حسن خاطر نے انکشاف کیا کہ اسرائیل نے 2007ء میں آئندہ آنے والی غیر معمولی جنگوں کے دوران اپنے عسکری قائدین کی محفوظ پناہ گاہوں کو مد نظر رکھتے ہوئے القدس کے پہاڑوں پر عسکری یونٹس قائم کرنے کا سلسلہ شروع کردیا تھا۔ انہوں نے بتایا یہاں پر بڑی پناہ گاہوں کی تعمیر کے لیے کھدائیوں اور تعمیرات کا سلسلہ اب بھی جاری ہے جس کی تازہ مثال گزشتہ پیر کو ملٹری اکیڈمی کی تعمیر کی منظوری ہے۔
فلسطینی رہنما نے بتایا کہ اسرائیلی حکام اگرچہ اپنے اس منصوبے کو انتہائی خفیہ رکھ رہے ہیں کہ مگر اسرائیل کی جانب سے القدس کو اسرائیلی ریاست کے عملی دارالخلافے میں تبدیل کرنے کے اقدامات سے اس کے اس شہر سے متعلق تزویراتی، مذہبی، فوجی و نسلی عزائم کا پوری طرح اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
اس موقع پر حسن خاطر نے عرب اور اسلامی دنیا کی قیادت سے اپیل کی کہ وہ القدس سے متعلق اسرائیلی ناپاک عزائم کو ناکام بنانے کے لیے متحد ہو کر ٹھوس اقدامات اٹھائیں۔
بشکریہ: مرکز اطلاعات فلسطین