فلسطین میں انسانی حقوق کے لیے سرگرم "مرکز تحفظ برائے شہری حقوق” کی جانب سے جاری ایک بیان میں بتایا گیا ہے کہ فلسطینی مزاحمت کاروں کے ساتھ جنگ بندی معاہدے کے باوجود قابض فوجیوں نے مارچ میں تین مرتبہ غزہ کی پٹی میں دراندازی کی۔ دراندازی کی کارروائیوں میں فلسطینی شہریوں کی فصلیں اور دیگر املاک پر حملے کر کے انہیں تباہ کیا گیا۔ نہتے شہریوں پر پانچ مرتبہ براہ راست فائرنگ کی گئی اور سرحدی چوکیوں کے قریب کھیتوں میں کام کرنے والے درجنوں کسانوں کو خوف زدہ کیا گیا اور انہیں کام سے روکا گیا۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ نام نہاد امن وامان کے آپریشن کی آڑ میں غزہ کی پٹی کے ماہی گیروں پر حملے کیے گئے۔ انہیں ماہی گیری سے روکنے کے ساتھ ساتھ ان کی کشتیوں کو بھی تباہ کیا گیا۔ مقامی ماہی گیروں کی فراہم کردہ اطلاعات کے مطابق اسرائیلی فوجیوں نے ان کی بارہ کشتیوں کو ناکارہ بنایا۔
دوسری جانب غزہ کی پٹی کی راہداریوں پر بھی قابض فوج کی غنڈہ گردی عروج پر رہی۔ مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی کے درمیان کرم ابو سالم راہداری ماہ مارچ میں 10 روز تک بند رکھی گئی۔ اسی طرح بیت حانون گذرگاہ بھی کئی روز تک فلسطینیوں کی آمد و رفت اور سامان کے لیے بند کردی گئی تھی۔