اسرائیل کے عبرانی ذرائع ابلاغ نے انکشاف کیا ہے کہ وزیراعظم بنجمن نیتن یاھو اور انتہا پسند سیاسی جماعتوں نے مقبوضہ مغربی کنارے کے شہر بیت
لحم میں ’’ھاؤ لبناہ‘‘ یہودی کالونی میں غیرقانونی طورپر تعمیر کردہ مکانات کو گرانے کے عدالتی حکم کی مزاحمت کا فیصلہ کیا ہے۔ عدالت نے مذکورہ یہودی بستی میں گذشتہ چار سال سے تعمیر کیے گئے کئی درجن مکانات کو غیر قانونی قرار دے کر انہیں مسمار کرنے کا حکم دیا ہے جبکہ صہیونی کنیسٹ نے بھی ان مکانات کی مسماری کی حمایت کرتے ہوئے ان میں آباد یہودیوں کو دوسرے مقامات پر منتقل کرنے کی سفارش کی ہے۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق نیتن یاھو کی حکومت اور ان کی انتہا پسند ہمنوا جماعتوں نے ’’ھاؤلبناہ‘‘ کالونی میں نہ صرف غیر قانونی قراردیے گئے مکانات گرانے کی مخالفت کا فیصلہ کیا ہے بلکہ مزید تعمیرات جاری رکھنے کی بھی کوششیں شروع کردی ہیں۔
اسرائیلی اخبار’’ہارٹز‘‘ کی رپورٹ کے مطابق سخت گیر خیالات کے حامل وزیراعظم نیتن یاھو اور متشدد یہودی گروپوں نے باہمی صلاح مشورے شروع کردیے ہیں۔ ان صلاح مشوروں کا مقصد اسرائیلی اٹارنی جنرل کو اس بات پر قائل کرنا ہے کہ وہ بیت لحم میں غیر قانونی قرار دے کر مکانات کی مسماری کے فیصلے پر عدالت سے نظرثانی کرائیں۔ اخبار نے ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ یہودی انتہا پسند گروپوں نے عدالت اور پارلیمنٹ کے فیصلے پراثراندازہونے کے لیے عوامی حلقوں کو بھی اپنا ہم خیال بنانے اور تمام سیاسی جماعتوں سے رابطے تیز کرنے شروع کردیے ہیں۔ ذرائع کے مطابق بیت لحم میں یہود مکانات بچانے کے لیے یہودی آباد کاری کونسل کے چیئرمین اور پارلیمنٹ کی مذہبی جماعتوں کے درمیان مذاکرات ہوئے ہیں اور معاملے کا کوئی درمیانہ حل تلاش کرنے اور مکانات کو گرانے سے بچانے کے مختلف پہلوؤںپر تبادلہ خیال کیا گیا۔ مذاکرات میں وزیراعظم نیتن یاھو کے سیکرٹری قانون زیفی ھاوزر بھی موجود تھے۔
اخبار نے ذرئع کے حوالے سے لکھا ہے کہ حکومت اور یہودی آباد کاری کونسل کے نمائندوں کے درمیان ہونے والی بات چیت میں یہ تجویز دی گئی ہے کہ تعمیر شدہ مکانات کو یہودیوں کی رہائش کے بجائے کسی دوسرے مقصد کے لیے استعمال کرلیا جائے لیکن انہیں گرانے نہ دیا جائے۔ کیونکہ اگر مکانات کو گرادیا گیا تو فلسطینیوں کو وہاں پر اپنی مرضی کے مطابق تعمیرات کرنے کا حق حاصل ہو جائے گا۔
بشکریہ: مرکز اطلاعات فلسطین