اسرائیلی محکمہ تعلیم نے دسویں جماعت تک کے تمام اسکولوں میں عربی زبان وادب کا مضمون شامل نصاب کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
صہیونی وزارت تعلیم کا کہنا ہے کہ ایسا اس لیے کیا جا رہا ہے تاکہ فلسطین میں موجود ان یہودیوں کے بچے بھی صہیونی اسکولوں میں تعلیم حاصل کرسکیں جو عبرانی کے بجائے عربی بولنے کو ترجیح دیتےہیں یا وہ عربی زبان سیکھنے کے خواہش مند ہیں۔مرکز اطلاعات فلسطین کے مطابق صہیونی وزارت تعلیم کی جانب سے تمام ہائی اسکولوں کو ایک سرکلرجاری کیا گیا ہے جس میں اسکولوں کی انتظامیہ سے کہا گیا ہے کہ وہ اپنے ہاں عربی زبان کی تعلیم کے رجحان کے لیے طلباء میں شوق پیدا کریں نیز حکومت عربی بولنے والے طلباء کے لیے الگ سے نصاب بھی شامل کر رہی ہے۔ اس کے علاوہ پہلی جماعت سے دسویں جماعت تک عربی کو ایک اختیاری مضمون کے طور پر بھی شامل کیا جا رہا ہےمحکمہ تعلیم کے حکام کا کہنا ہے کہ وہ مختلف مدارس کے زیراہتمام ایسی تربیت گاہیں اور ورکشاپس کا بھی اہتمام کریں گے جن میں یہودی اسکولوں میں زیرتعلیم صہیونیوں کے بچوں کو عربی زبان و ادب کی اہمیت سے روش ناس کرانے کی کوشش کی جائے گی۔ اس سلسلے میں وزارت تعلیم جلد ہی ایک ویب سائیٹ بھی لانچ کرے گی جس میں اسکولوں میں عربی زبان کی تدریس کے بارے میں تمام تفصیلات جاری کی جائیں گی۔ خیال رہے کہ اسرائیل میں اسکولوں میں ذریعہ تعلیم عبرانی زبان ہے تاہم اب یہودیوں پر عربوں کی چھاپ لگانے کے لیے انہیں عربی بھی سکھانے کی کوششیں تیز کر دی گئی ہیں۔ دوسری جانب مبصرین کا خیال ہے کہ اسکولوں میں عربی زبان کی تعلیم کے حوالے سے اسرائیل کی نئی پالیسی بھی ایک سازش ہے جس کا مقصد یہودیوں کی ایک ایسی نئی نسل تیار کرنا ہے جو عربی زبان سے واقف ہونے کے بعد فوج میں خدمات انجام دے گی اور ان کے ذریعے فلسطینیوں کا تعاقب کرنا، انہیں قاتلانہ حملوں میں شہید کرنا یا انہیں گرفتار کرنا آسان ہو جائے گا۔ کیونکہ اس وقت بھی اسرائیلی فوج میں بڑی تعداد میں ایسے فوجی موجود ہیں جو روانی کے ساتھ عربی بولتے ہیں۔ ان فوجیوں کو سادہ کپڑوں میں فلسطینیوں کے علاقوں میں گھسایا جاتا ہے اور وہ فلسطینی مزاحمت کاروں کے بارے میں سراغ رسانی کرتے ہیں۔