فلسطین نیوز کو موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق تنظیم آزادی فلسطین (پی ایل او) کے سکریٹری جنرل عریقات نے غیر ملکی صحافیوں کو بتایا کہ بیت المقدس ایسا مسئلہ ہے جس کا تعلق حتمی صورت حال سے ہے اور اس پر اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان مذاکرات ہوں گے کیوں کہ فلسطینی بھی اسے مستقبل میں اپنی خود مختار ریاست کا دارالحکومت چاہتے ہیں۔
اگر ڈونلڈ ٹرمپ اپنی انتخابی مہم کے دوران کیے جانے والے وعدے پر عمل کرتے ہوئے سفارت خانہ بیت المقدس منتقل کرتے ہیں تو اس کے نتیجے مین کئی دہائیوں سے جاری امریکی پالیسی ختم ہوجائے گی ، عالم اسلام میں غم و غصے کے جذبات بھڑک جائیں گے اور بین الاقوامی سطح پر بھرپور مذمت سامنے آئے گی۔ یاد رہے کہ فلسطینی ریاست کے حوالے سے امریکی سپورٹ کے ساتھ ہونے والے آخری مذاکرات 2014 میں ناکام ہو گئے تھے۔
عریقات نے ان بھیانک نتائج سے بھی خبردار کیا جو مقبوضہ اراضی پر قائم بستیوں کو اسرائیل میں شامل کرنے کی صورت میں سامنے آئیں گے۔ اسرائیل میں امریکی حکومت کے آئندہ سفیر ڈیوڈ فریڈمین ایک وکیل اور ڈونلڈ ٹرمپ کے قریبی دوست ہیں۔ ان کے پاس سفارت کاری کا کوئی تجربہ نہیں۔ وہ مغربی کنارے کے اسرائیل میں ضم کر دیے جانے کے حامی ہیں۔
امریکا میں بعض تجزیہ کاروں کے مطابق عام طور پر امریکا کے سفیر مشرق وسطی کی پالیسی کی باگ ڈور نہیں سنبھالتے ہیں۔ ابھی تک یہ بھی واضح نہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ کتنے عرصے تک اس میدان میں رہنے کو تیار ہیں۔
فریڈمین کو منصب سنبھالنے سے پہلے امریکی سینیٹ کی جانب سے منظوری کی ضرورت ہوگی۔ ایک غیر ملکی خبر رساں ایجنسی سے گفتگو کرتے ہوئے فریڈمین نے کہا کہ "میں اس ذمے داری کو مرحلہ وار سر انجام دوں گا… تاہم اس حوالے سے ابھی ہر گز کوئی تبصرہ نہیں کروں گا”۔