مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق انسانی حقوق کی تنظیم’’حق شہریت‘‘ کی جانب سے جاری اعدادو شمار میں بتایا گیا ہے کہ فلسطینیوں کی غربت کا سب سے بڑا سبب اسرائیل کی عاید کردہ پابندیاں، دیوار فاصل اور یہودی کالونیاں ہیں جنہوں نے فلسطینی شہریوں کا نظام زندگی مفلوج کرکے رکھ دیا ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بیت المقدس میں مجموعی طورپر 3 لاکھ فلسطینی خط غربت سے نیچے زندگی گذار رہے ہیں۔ بیت المقدس کے باشندوں کی غربت کی ایک وجہ شہر کو مغربی کنارے سے الگ کرنا بھی ہے کیونکہ بیت المقدس اور مغربی کنارے کے درمیان اقتصادی، تجارتی، دینی، عائلی اور سیاحتی روابط ختم ہونے سے فلسطینیوں کی معاشی زندگی پر گہرے منفی اثرات مرتب ہوہے ہیں۔
رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ اسرائیلی حکومت کی جانب سے فلسطینی شہریوں پر مکانات کی تعمیر ومرمت پرپابندی عاید کی گئی ہے جس کے نتیجے میں فلسطینیوں کے لیے سخت گھٹن کی فضاء ہے۔ فلسطینی شہریوں کو نہ صرف نئے مکانات کی تعمیر پرپابندیوں کا سامنا ہے بلکہ ان کے موجودہ مکانات کو بھی مسمار کیا جا رہا ہے۔ پچھلے ایک سال کے دوران صہیونی حکومت نے بیت المقدس میں فلسطینی شہریوں کے 98 مکانات منہدم کیے جس کے نتیجے میں 208 فلسطینی گھروں سے محروم ہوگئے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پچھلے ایک سال کے دوران بیت المقدس میں فدائی کارروائیوں کے بعد شہریوں کی گھر بدری کے واقعات میں بھی اضافہ ہوگیا ہے۔ صہیونی حکومت کی جانب سے سب زیادہ قدیم بیت المقدس۔ سلوان اور الشیخ جراح کے مقامات میں موجود فلسطینیوں کو بے دخل کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔
فلسطینیوں کی غربت کی ایک وجہ اسرائیل کی جانب سے بے ہنگھم اور بے ترتیب سڑکوں کی تعمیر ہے۔ یہ سڑکیں فلسطینیوں کے لیے نہیں بلکہ یہودی شرپسندوں کے لیے تعمیر کی گئی ہیں۔ بیت المقدس میں تعمیر کی گئی ’’شاہراہ 4 ‘‘ جہاں بیت صفافا کو اس کے مضافاتی علاقوں سے کاٹ رہی ہے وہیں فلسطینی کالونیوں بالخصوص راس خمیس، راس شحادہ،السلام کالونی اوردیوار فاصل کے آس پاس کی فلسطینی آبادیوں کو کوڑے کرکٹ کے ڈھیروں میں تبدیل کردیا گیا ہے۔فلسطینیوں کے پاس اپنی بچی کچھی اراضی کو صہیونی حکومت کوڑے کرکٹ اور فاضل مواد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ اسرائیلی حکومت کی جانب سے بیت المقدس کے فلسطینی آبادی کو پائپ لائنوں کے پانی سے استفادہ کا حق بھی نہیں دیا جاتا ہے۔ شہر کے 36 فی صد فلسطینی پینے کے صاف پانی سے بھی محروم ہیں۔ السلام کالونی میں فلسطینیوں کی تعداد 80 ہزار ہے لیکن اس کالونی کو پانی مہیا نہیں کیا گیا ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیم کے اعدادو شمار کے مطابق بیت المقدس میں مجموعی طورپر فلسطینی سالانہ 20 مکعب میٹر پانی استعمال کرتے ہیں جبکہ یہودی کالونیوں میں یہ شرھ 70 سے 100 مکعب میٹر سے بھی زیادہ ہے۔
نہتے شہریوں پر طاقت کا استعمال
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بیت المقدس کی معیشت کی تباہی کے ساتھ ساتھ فلسطینی شہریوں کواسرائیلی فوج کی منظم ریاستی دہشت گردی نے بھی سنگین مشکلات سے دوچار کررکھا ہے۔ طاقت کا اندھا دھند استعمال اور ہرعمر کے افراد کی بلا جواز گرفتاریاں ایک مصیبت سے کم نہیں ہیں۔
سال 2014 ء کےدوران صہیونی فوج نے بیت المقدس سے 406 بچوإ سمیت 1187 فلسطینیوں کو حراست میں لیا۔ اب تک ان میں سے 338 افراد پر فردم جرم عاید کی گئی۔ انمیں 122 بچے بھی شامل ہیں۔
فرد جرم عاید کیے جانے کے بعد بھی 338 میں سے 314 فلسطینی ابھی تک زیرحراست ہیں اور ان سے مسلسل تفتیش کا عمل جاری ہے۔ اسی طرح 122 کم عمر بچوں میں سے 120 کے خلاف قانونی کارروائی آگے نہیں بڑھاگئی گئی۔ حراست میں لیے گئے بیشتر بچوں کی عمریں 15 سے 18 سال کے درمیان ہیں اور ان پر یہودی آباد کاروں پر پتھرائو کا الزام عاید کیاگیا ہے۔
بشکریہ:مرکزاطلاعات فلسطین