قابض اسرائیلی حکومت کی جانب سے فلسطینیوں کےخلاف انتقامی پالیسی میں مزید شدت آتی جا رہی ہے۔ ایک تازہ رپورٹ میں بتایا گیاہے
کہ قابض صہیونی حکام نے رواں سال کی پہلی سہ ماہی کے دوران مقبوضہ علاقوں میں فلسطینیوں کے کم سے کم 65 مکانات اور دیگر عمارتوں کو گرا دیا۔ مکانات مسماری کی بیشتر کارروائیاں مقبوضہ بیت المقدس، مغربی کنارے کے شہروں الخلیل، نابلس، وادی اردن اور شمالی فلسطین کے اندرونی علاقوں میں دیکھنے میں آئیں۔ مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق فلسطینیوں کے یہودی آباد کاری کےخلاف منظم "یوتھ سوسائٹی” کی جانب سے جاری ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اسرائیلی فوج اور انتظامیہ نے فلسطینیوں کے مکانات مسماری کے لیے طرح طرح کے جواز اور حیلے بہانے تراش رکھے ہیں۔ وہ انہی حیلوں اور جوازوں کی آڑ میں فلسطینیوں کے مکانات تباہ و برباد اوراملاک کو تاراج کر رہے ہیں۔ اسی طرح کے نام نہاد جوازوں میں ایک بہانہ یہ بھی بنایا جاتا ہے کہ چونکہ یہ مکانات سیکٹر”سی” میں آتے ہیں جس کا براہ راست کنٹرول اسرائیل کے پاس ہے، لہٰذا یہاں پر فلسطینیوں کے مکانات کی تعمیر غیر قانونی ہے۔ کسی بھی فلسطینی کو یہاں پر مکان کی تعمیر سے قبل اس کی اجازت حاصل کرنا ہوگی اور جب اجازت کے حصول کی درخواست دی جاتی ہے تو یہ کہہ کر اجازت دینے سے انکار کردیا جاتا ہے کہ یہ علاقہ متنازعہ ہے اور یہاں کسی کو کچھ بھی تعمیر کرنے کی اجازت نہیں ہے۔
یوتھ سوسائیٹی کاکہنا ہے کہ مغربی کنارے میں سنہ 2008ء کے بعد سے فلسطینیوں کے مکانات کی مسماریوں کا سلسلہ زور پکڑ گیا ہے۔ اسرائیل کی موجودہ حکومت کے قیام کے بعد فلسطینی علاقوں میں اسرائیلی ریاستی دہشت گردی نے زور پکڑا ہے اتنا ماضی میں نہیں تھا۔
بشکریہ: مرکز اطلاعات فلسطین