فلسطین نیوز کو موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق’’اوچا‘‘ کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ سنہ 2014ء کے موسم گرما کے دوران غزہ کی پٹی پر مسلط کی گئی اسرائیلی جنگ سے لاکھوں بچے نفسیاتی اور سماجی مسائل سے دوچار ہوئے تھے۔ دو سال گذرجانے کے باوجود وہ نفسیاتی اور سماجی مشکلات سے دوچار ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ غزہ کی پٹی پر اسرائیل کی مسلط کردہ جنگ کے نتیجے میں وہاں رہنے والے لاکھوں بچوں کے رویوں پر منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔ ایسے لگ رہا ہے کہ یہ اثرات بچوں میں مستقل عادات میں تبدیل ہو رہے ہیں۔ اس لیے غزہ کی پٹی کے کم سے کم 25 فی صد بچوں کے نفسیاتی اور سماجی معائنے اور علاج معالجے کی اشدت ضرورت ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ غزہ کی پٹی کے ہرچار میں سے ایک بچہ جنگ کے نتیجے میں نفسیاتی اور سماجی مسائل سے دوچار ہوا ہے۔ یہ نفسیاتی اور سماجی عوامل بچوں کی تعلیم اور معمول کی زندگی کو بری طرح متاثر کررہے ہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ جنگ کے نتیجے میں بچوں پر پڑنے والے منفی اثرات کی مثالیں آج بھی موجود ہیں۔ بعض بچے غیر ارادی طور پر پیشاب کردیتے ہیں۔ رونے چیخنے لگتے ہیں اور دوسرے بچوں اور اہل خانہ سے الجھتے ہیں۔ اس لیے ان بچوں کے سماجی اور نفسیاتی معائنے کی اشد ضرورت ہے۔ اگر ان لاکھوں بچوں کا نفسیاتی اور سماجی معائنے کے بعد علاج نہ کیا گیا تو ان کی زندگی مزید مشکلات سے دوچار ہوجائے گی۔
خیال رہے کہ جولائی اور اگست 2014ء کو اسرائیل کی غزہ کی پٹی پر مسلط کی گئی 51 روزہ جنگ کے دوران غزہ کی پٹی پر زمین، فضاء اورسمندر سے بھی حملے کیے گئے تھے جس کے نتیجے میں 2323 فلسطینی شہید ، ہزاروں زخمی اور بڑی تعداد میں مکانات مسمار کردیے گئے تھے۔ اس جنگ نے بچوں کی زندگی پر گہرے منفی اثرات مرتب کیے تھے