سیاحوں کو یہاں تک پہنچنے کے لیے فوجی چوکیوں کو عبور کرنا پڑتا ہے جو اس اہم سیزن میں دنیا بھر سے آنے والوں کے لیے ایک بڑی رکاوٹ ہے۔
فلسطین نیوز کو موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق وزارت سیاحت کے ایک سابق ملازم فادی قطان کے مطابق خوف کے سبب آنے والے سیاح اس شہر میں زیادہ عرصہ نہیں رہتے۔ وہ اسرائیلی ہوٹلوں میں قیام کرتے ہیں اور بیت لحم اور دیگر فلسطینی شہروں کے سرسری سے دورے پر اکتفا کرتے ہیں۔ یہ سیاح نہ کچھ کھاتے پیتے ہیں اور نہ ہی خریداری کرتے ہیں جب کہ معیشت کے لیے بہت اہم ہے کہ آنے والے سیاح زیادہ سے زیادہ عرصے کے لیے قیام کریں۔
فلسطین میں سیاحت سے متعلق حکام کے مطابق سال بھر کے دوران تقریبا بیس لاکھ سیاح بیت لحم پہنچتے ہیں تاہم یہ شہر اقتصادی طور پر ان سیاحوں کو سمونے کی قدرت نہیں رکھتا۔ مقامی فلسطینی بالخصوص 1948 میں اسرائیلی قبضے میں آنے والے شہروں اور بیت المقدس سے تعلق رکھنے والی آبادی درحقیقت شہر کی معیشت کی شہ رگ ہیں۔
بیت لحم میں سیاحتی مراکز کے مالکان کا کہنا ہے کہ بیت المقدس کے لوگوں اور مقامی فلسطینیوں کی وجہ سے شہر کی اقتصادی سرگرمیاں جاری رہتی ہیں جو مستقل طور پر شہر کا دورہ کرتے ہیں اور مختلف خدمات کا استعمال کرتے ہیں۔
بیت لحم میں "الرحمۃ” (رحمت) کے عنوان سے ہونے والی تقریبات کا آغاز "کرسمس ٹری” کو روشن کیے جانے کے ساتھ ہوا۔
بیت لحم کی بلدیہ کے میڈیا ذمے دار فادی غطاس نے بتایا کہ اس سال کا کرسمس ٹری گزشتہ برسوں سے مختلف ہے۔ گزشتہ برسوں میں یہ درخت فلسطینی پرچم کے رنگوں سے سجایا جاتا تھا جب کہ رواں برس اس کو سنہرے رنگ سے آراستہ کیا گیا ہے جیسا کہ بیت لحم کی سڑکوں کو بھی اسی رنگ سے سجایا گیا ہے۔
کرسمس ٹری کو روشن کرنے کی تقریب میں فلسطینی وزیراعظم رامی الحمد للہ نے شرکت کی جب کہ ہر سال کی طرح کرسمس کے روز ہونے والے خصوصی اجتماع میں فلسطینی صدر محمود عباس شریک ہوں گے۔