فلسطین نیوز کو موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق وائٹ ہاؤس کی جانب سےادارے کے ’ٹوئٹر‘ اکاؤنٹ پر ایک نقشہ جاری کیا گیا جس میں بتایا گیا کہ ٹرمپ پہلے مرحلے میں ان ممالک کا دورہ کریں گے۔
ان نقشوں میں اسرائیل کے نقشے میں سنہ 1967ء کی جنگ میں قبضے میں لیے گئے عرب علاقے شامل نہیں۔
خیال رہے کہ امریکا سرکاری طور پر سنہ 1967ء کے مقبوضہ عرب علاقوں کو اسرائیل کا حصہ نہیں مانتا۔ ان میں غرب اردن، مشرقی بیت المقدس اور وادی گولان کے علاقے ابھی تک اسرائیل کے تسلط میں ہیں۔
ادھر اسرائیلی وزارت خارجہ کی طرف سے ’ٹوئٹر‘ پر امریکی نقشے کے جواب میں ایک مختصر فوٹیج پوسٹ کی گئی ہے جس میں ’بیت المقدس کو اسرائیل کا ابدی دارالحکومت‘ قرار دیا گیا ہے۔
اگرچہ اسرائیلی وزارت خارجہ کی طرف سے واشنگٹن پر کوئی خاص تنقید تو نہیں کی گئی تاہم اتنا کہا گیا ہے کہ ’وائٹ ہاؤس میں ہمارے دوستو! ہم جناب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مملکت اسرائیل کے دورے کا خیر مقدم کرتے ہیں‘۔
تاہم اسرائیلی خاتون وزیر انصاف ’ایلیت شاکید نے ایک بیان میں وائٹ ہاؤس کی طرف سے جاری کردہ اسرائیلی نقشے پر تنقید کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ توقع ہے کہ یہ غلطی امریکا کی پالیسی نہیں بلکہ لاعلمی کا نتیجہ ہوگی۔