رپورٹ کے مطابق اردنی فرمانروا نے ان خیالات کا اظہار علماء اور مسلمان دانشوروں کے ایک وفد سے ملاقات کے دوران کیا۔ انہوں نے کہا کہ مسجد اقصیٰ اور حرم قدسی کے دفاع کے لیے ہم جو کچھ بھی کررہےہیں وہ ہماری دینی، سیاسی اور اخلاقی ذمہ داری ہے۔ مسجد اقصیٰ کے دفاع کے لیے تمام سفارتی اور قانونی طریقے بروئے کار لائے جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ مسجد اقصیٰ میں کشیدگی کا ذمہ دار اسرائیل خود ہے جس نے بیت المقدس میں پرتشدد کارروائیاں کرکے معاملے کو پورے خطے کا ایک بڑا بحران بنا ڈالا ہے۔
شاہ عبداللہ دوم کا کہنا تھا کہ فلسطین کا مسئلہ مشرق وسطیٰ کا "ام المسائل” ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کا سب سے بڑا تنازع ہے جس کے پرامن حل تک پورے مشرق وسطیٰ میں دیر پا اور مستحکم امن قائم نہیں ہوسکتا ہے۔ اسرائیلی سازشوں کی روک تھام اور مسجد اقصیٰ کے دفاع کے لیے سیاسی، عسکری اور اقتصادی سطح پر موثر اقدامات کی اشد ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ دین اسلام کی اعتدال پسندانہ فکر کی ترویج اور دہشت گردی کے خلاف پوری مسلم امہ کو ایک پلیٹ فارم پر متحد ہونا پڑے گا۔
اردنی فرمارنوا شاہ عبداللہ نے مغرب میں اسلام کے خلاف جاری منفی پروپیگنڈے کی بھی مذمت کی اور کہا کہ اسلام دہشت گردی اور انتہا پسندی کی تعلیم نہیں دیتا۔ مغرب کو اسلام کے خلاف مکروہ پروپیگنڈے سے باز رہنا چاہیے۔
انہوں نے مسجد اقصیٰ میں یہودی آباد کاروں کے حملوں اور فلسطینی شہریوں پر اسرائیلی پولیس اور فوج کے تشدد کی شدید مذمت کی اور کہا کہ یہودیوں کی جانب سے حرم قدسی کی بے حرمتی کا سلسلہ جاری رہنا نہایت افسوناک اور تشویشناک ہے۔